75871 | جائز و ناجائزامور کا بیان | کفار کے ساتھ معاملات کا بیان |
سوال
اہل تشیع کے ادارہ میں پڑھانا اور اُن کے ساتھ بیٹھ کر کھانا پینا درست ہے یا نہیں؟ کیا اُن کے ادارے میں پڑھانے کے بعد اُن کی دی ہوئی تنخواہ جائز ہے یا نہیں؟ چاہے وہ تنخواہ اپنی طرف سے دیتے ہوں یا ادارے میں پڑھنے والے بچوں کی فیسوں سے دیتے ہوں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر اُس ادارے میں آپ کو غلط عقائد اور مسائل پڑھانے کے لیے نہیں، بلکہ عام عصری مضامین کی تعلیم دینے کے لیے مقرر کیا جارہا ہے اور آپ کو تنخواہ بھی حلال ذریعہ آمدن سے ہی دی جارہی ہےتو ایسے ادارے میں پڑھانا جائز ہے۔
البتہ گمراہ لوگوں سے زیادہ اختلاط رکھنا دین و دینا کے نقصان کا باعث ہوتا ہے۔
حوالہ جات
فی الفتاوی الھندیۃ: 4/448
"ويجوز الاستئجار على تعليم اللغة والأدب بالإجماع. كذا في السراج الوهاج."
فی أحکام القرآن للجصاص: 3/583
"قولہ تعالی: لا ينهاكم الله عن الذين لم يقاتلوكم في الدين. الآية. روى هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة: أن أسماء سألت النبي صلی اللہ علیہ وسلم عن أم لها مشركة جاءتني أأصلها؟ قال: نعم صليها. قال أبو بكر: وقوله: ﴿أن تبروهم وتقسطوا إليهم﴾ عموم في جواز دفع الصدقات إلى أهل الذمة إذ ليس هم من أهل قتالنا، وفيه النهي عن الصدقة على أهل الحرب؛ لقوله: إنما ينهاكم الله عن الذين قاتلوكم في الدين."
طارق مسعود
دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی
۴ ِ رجب ۱۴۴۳ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | طارق مسعود | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |