021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدت کا شرعی طریقہ کار
75820طلاق کے احکامعدت کا بیان

سوال

شرعی طور پر عدت کا طریقہ تفصیلی طور پر بتا دیجیے ۔ (بیوی گزشتہ ۹ ماہ سے اپنے والدین کے گھر پر ہے)۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  مطلقہ  اور بیوہ عورتوں کی عدت اور انکے احکام کی تفصیل میں فرق ہے، چنانچہ مطلقہ  عورت کی عدت کے متعلق  تفصیل یہ ہے کہ اگر عورت کو  ماہواری آتی ہو تو اس کی عدت   تین ماہواری ہو گی یعنی تین حیض کی مدت تک اس کی عدت رہے گی اور اگر کسی بھی وجہ سے حیض آنا بند  ہو گیا ہو تو پھر عدت تین مکمل مہینے  ہو گی،  جبکہ بیوہ عورت  کی عدت چار ماہ دس دن ہے ۔ یہ حکم اس وقت ہے جب مطلقہ اور بیوہ حاملہ نہ ہوں، حاملہ ہونے کی صورت میں ان دونوں کی عدت بچے کی پیدائش تک ہو گی۔  چونکہ صورت مسئولہ میں عورت کو طلاق رجعی دی گئی ہے،  لہذا  اسی کے مطابق عدت کا حکم بیان کیا جا تا ہے  ۔

  اگر شوہر نے طلاق پاکی کی حالت میں دی ہے تو عورت  کی عدت پاکی کے بعد آنے والے حیض سے ہی   شروع ہو جائے  گی اور  اگر  نا  پاکی یعنی حیض کی حالت میں دی ہو تو پھر اگلے حیض سے عدت کی ابتداء ہو گی۔ شوہر نے چونکہ طلاق رجعی دی ہے ، لہذا عورت شوہر کے گھر ہی میں عدت گزارے گی، یعنی کہیں آنے جانے سے پرہیز کرے گی، البتہ  شوہر سے پردہ کرنے کی  اسے ضرورت نہیں ، بلکہ اس کے لیے زیب و زینت بھی اختیار کر سکتی ہے، بلکہ کرنا مستحب ہے، تاکہ شوہر  معاملات بہتر ہونے کی صورت میں  رجوع کرنے  پر آمادہ ہو جائے۔

حوالہ جات
القرآن الكريم، [البقرة: 228]:                                                                                                        
﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴾
ألدر المختار  و حاشية ابن عابدين :(3/ 504)
وأنواعها حيض، وأشهر، ووضع حمل كما أفاده بقوله (وهي في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا (أو فسخ بجميع أسبابه) . ومنه الفرقة بتقبيل ابن الزوج نهر (بعد الدخول حقيقة، أو حكما) أسقطه في الشرح، وجزم بأن قوله الآتي " إن وطئت " راجع للجميع (ثلاث حيض كوامل) لعدم تجزي الحيضة، فالأولى لتعرف براءة الرحم، والثانية لحرمة النكاح، والثالثة لفضيلة الحرية۔
الفتاوى العالمكيرية : (1/ 526)
إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء سواء كانت الحرة مسلمة أو كتابية كذا في السراج الوهاج.
والعدة لمن لم تحض لصغر أو كبر أو بلغت بالسن ولم تحض ثلاثة أشهر كذا في النقاية وكذا لو رأت دما يوما، ثم لم تر فعدتها بالشهور هو الصحيح ولو رأت ثلاثة دما، ثم انقطع فعدتها بالحيض، وإن طال إلى أن تيأس كذا في العتابية. وفي جوامع الفقه فيما دون الثلاثة تعتد بالشهور وهو الصحيح وفي الثلاثة بالحيض كذا في غاية السروجي. وكذا إذا كانت صغيرة تعتد بالشهور فحاضت بطل حكم الشهور واستقبلت العدة بالحيض كذا في السراج الوهاج.
إذا طلق امرأته في حالة الحيض كان عليها الاعتداد بثلاث حيض كوامل ولا تحتسب هذه الحيضة من العدة كذا في الظهيرية.

محمد انس جمیل

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

3، رجب المرجب 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب