021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق دینے کا شرعی طریقہ
75817طلاق کے احکامطلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان

سوال

طلاق دینے کا شرعی طریقہ کیا ہے؟ وضاحت سے بتا دیجیے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

فقہاء  کرام نے طلاق دینے کے تین طریقے بیان فرمائے  ہیں: (۱) احسن ، (۲) حسن اور (۳)  بدعی ۔

(1) طلاق دینے کا سب سے احسن اور افضل طریقہ یہ کہ مرد بیوی کو  ایسی حالت میں  واضح الفاظ میں ایک طلاق دے کہ جب وہ حیض سے پاک ہو اور اس پاکی کی مدت میں مرد نے اس سے صحبت   نہ کی ہو ۔  چنانچہ عدت پوری ہوتے ہی نکاح ختم ہو جائے گا ۔ اس طرح طلاق دینے میں دوران عدت مرد کو رجوع کا حق بھی حاصل ہو گا اور عدت ختم ہونے کے بعد دوبارہ نکاح کا بھی  ۔

(2) طلاق دینے کا  دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہر پاکی کی حالت میں ایک طلاق دے ۔ اس طرح  تین طہروں (پاکی کی حالت)میں تین طلاقیں دی جائیں ۔ اس طرح طلاق دینا اچھا نہیں کیونکہ تین طلاقوں کے بعد عورت سے  دوبارہ نکاح بغیر حلالہ شرعیہ  کے ممکن نہ ہو سکے گا ۔      

(3)  تیسرا طریقہ یہ ہے کہ بیک وقت ایک ہی لفظ سے  تین طلاقیں دی جائیں یا   ایک ہی  مجلس میں الگ الگ تین طلاقیں دی جائیں یا   حالت حیض میں عورت کو طلاق دی جائے  چاہے ایک ہو یا زیادہ  یا ایسے طہر میں طلاق دی جائے جس میں عورت سے صحبت  کی گئی ہو ۔ یہ طریقہ انتہائی ناپسند اور باعث گناہ ہے ۔ البتہ ان تمام طریقوں سے طلاق واقع ہو جائے گی ۔

حوالہ جات
مصنف عبد الرزاق(6/ 348 ط التأصيل الثانية):
عن إبراهيم قال: ‌كانوا ‌يستحبون ‌أن ‌يطلقها ‌واحدة، ثم يدعها حتى يخلو أجلها، وكانوا يقولون: {لعل الله يحدث بعد ذلك أمرا} [الطلاق: 1]، لعله أن يرغب فيها۔
ألدر المختار و حاشية ابن عابدين:(3/ 230)
(وأقسامه ثلاثة: حسن، وأحسن، وبدعي يأثم به)۔۔۔(طلقة) رجعية (فقط في طهر لا وطء فيه) وتركها حتى تمضي عدتها (أحسن) بالنسبة إلى البعض الآخر (وطلقة لغير موطوءة ولو في حيض ولموطوءة تفريق الثلاث في ثلاثة أطهار لا وطء فيها ولا حيض قبلها ولا طلاق فيه فيمن تحيض و) في ثلاثة (أشهر في) حق (غيرها) حسن وسني فعلم أن الأول سني بالأولى (وحل طلاقهن) أي الآيسة والصغيرة والحامل (عقب وطء) لأن الكراهة فيمن تحيض لتوهم الحبل وهو مفقود هنا (والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين) في طهر واحد (لا رجعة فيه، أو واحدة في طهر وطئت فيه، أو) واحدة في (حيض موطوءة) لو قال والبدعي ما خالفهما لكان أوجز وأفيد۔
وفي الرد  (231/3):
وحاصله أن السنة في الطلاق من وجهين: العدد والوقت؛ فالعدد وهو أن لا يزيد على الواحدة بكلمة واحدة لا فرق فيه بين المدخولة وغيرها لكنه في المدخولة خاص بما إذا كان في طهر ولا وطء فيه ولا في حيض قبله كما مر وإلا فهو بدعي وفي غيرها لا فرق بين كونه في طهر أو في حيض لأن الوقت أعني الطهر الخالي من الجماع خاص بالمدخولة، فلزم في المدخولة مراعاة الوقت والعدد، بأن يطلقها واحدة في الطهر المذكور فقط وهو السني الأحسن، أو ثلاثا مفرقة في ثلاثة أطهار أو أشهر وهو السني الحسن.

محمد انس جمیل

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

3، رجب المرجب ۱1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب