021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
صلح کی شرائط پر عمل نہ کرنا
75868اقرار اور صلح کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ:

پس منظر:

میرے ماموں نے 1983میں ہمارے3  کنال11 مرلہ بر لب سڑک زرعی رقبہ  پر زبردستی قبضہ کر لیا اور اپنی طرف سے اس کا متبادل اپنا 4کنال زرعی رقبہ ہمارے رقبہ کے آخر میں خالی چھوڑ دیا، والد صاحب نے اس4 کنال رقبہ  کو بالکل نہ چھیڑا اور اپنا  مطالبہ کہ میرے رقبہ پر قبضہ چھوڑ دیا جائے کرتے رہے،15سال میرے ماموں کا  4کنال رقبہ غیر آباد پڑا رہا ، ہمارے3  کنال 11 مرلہ رقبہ پر زبردستی قبضہ کے کچھ عرصہ بعد ہماری زمین سے کاٹی گئی سرکاری کچی سڑک سے آگے ہمارے رقبہ پر ماموں نے مزید قبضہ کر کے اسے اپنے آنے جانے کا راستہ بنا لیا، ہمارے 3کنال11 مرلہ قبضہ شدہ رقبہ پر آم کا باغ لگا دیا اور ساتھ ہی ہماری  زرعی حد کے اندر تک بنہ جات کی شکل میں قبضہ کر لیا، آخر کار والدہ صاحبہ اور ماموں کے درمیان زبانی معاہدہ طے پایا اور اس کا کوئی گواہ نہ تھا، والدہ صاحبہ زندہ ہیں جبکہ ماموں2016 میں وفات پا چکے ہیں، اس معاہدہ میں چند شرائط طے پائیں جن پر میری والدہ صاحبہ نے میرے والد صاحب کو آماد ہ کیا کہ اس طرح جھگڑا ختم ہو سکتا ہے،واضح رہے کہ وہ رقبہ جس پر زبردستی قبضہ کیاگیا میرے والد صاحب کی موروثی جائیداد ہے، الحمد للہ وہ اس وقت زندہ ہیں اور انہوں نے یہ رقبہ سن 2000 میں میرے نام تملیک  کر دیا تھا اور اب یہ 3کنال11 مرلہ رقبہ میرے نام ہے۔

شرائط معاہدہ:

والدہ صاحبہ نے30 ہزار روپیہ  او ر 4کنال رقبہ میرے والد صاحب  کی آمادگی سے  ماموں سے اس شرط پر لیا کہ ہمارا اگلارقبہ  جس پر بعد میں زبردستی قبضہ کیا گیا ، وہ چھوڑ دیا جائے اور ساتھ ہی میرے ماموں خود حد براری کروا کر بقیہ بنہ جات سے تجاوز شدہ رقبہ چھوڑنےکے پابند ہوں گے، تقریبا1998 میں ان شرائط کے تحت یہ معاہدہ ہوا جس پر ہمیں30 ہزار2/3 قسطوں میں  دیے گئے اور ماموں کا وہ عقبی4 کنال جو15 سال سے غیر آباد پڑا تھا اس کو ہم نے کاشت کرنا شرو کر دیا۔

بعد کے حالات:

معاہدہ کے بعد ہمارے مسلسل اصرار کے باوجود حد برآری نہ کروائی گئی اور نہ ہی ہمارے رقبہ سے قبضہ چھوڑا گیا ، میں نے معاہدے کی تکمیل کی خاطر تا کہ کوئی لڑائی جھگڑا گے نہ بڑھے ماموں کی زندگی میں خود حد بر آری کروائی جس پر انہوں نے قبضہ شدہ رقبہ کے بارے میں کہا کہ یہ رقبہ میرا اور ساتھ ہی حد بر آری ماننے سے انکار کردیا ، ان کی وفات کے بعد2018  اور2021 میں نے ان کی اولاد اور بھتیجوں کی موجودگی میں حد بر آریاں کروائیں تا کہ ہماری آپس کی رنجش اور تنازعہ ختم ہو لیکن ان کی اولاد اور بھتیجوں نے مذکورہ رقبہ پر قبضہ اور حد بر آری کو تسلیم نہ کیا بلکہ محکمہ مال کی طرف سے لگائے گئےتمام نشانات اور ستون بھی غائب کر دیے اور تمام رقبہ تا حال ان کے قبضہ میں ہے۔

ان حالات کے تحت میرے سوالات:

1: کیا پہلے والے3 کنال 11مرلہ رقبہ پر قبضہ کے بعد سرکاری سڑک کے آگے ہمارے رقبہ پر قبضہ کر کےمعاہدہ کی آڑ میں ہمیں 30ہزار روپے دے کر  اپنی عقبی4 کنال پرہماری کاشت شروع کروا کر پھر معاہدہ پر عمل نہ کرنااور ان کا تاحال  ہمارے رقبہ پر قابض رہنے سے معاہدہ برقرار ہے؟ اور معاہدہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟  ہم سے معاہدہ کی آڑ میں  دھوکہ دہی سے  3کنال11 مرلہ کا حق چھینا گیا اور سرکاری سڑک سے آگے ہمارے رقبہ پر زبردستی قبضہ کر کے ہمیں پھر معاہدہ پر مجبور کیا گیااور بعد  میں معاہدہ سے انہوں نے انحراف کیا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مال کے بدلے مال پر معاہدہ اور صلح  کرنا شرعا درست اور جائز ہے  اور اس طرح کا صلح کا معاہدہ  "خریدو فروخت" کے حکم میں ہوتا ہے ،صلح کے معاہدے کے بعد    ہر فریق اس چیز کامالک  بن جاتاہے جو دوسرے فریق کی طرف سے اس کے لیے طے ہوئی ہو ، نیز صلح ہو جانے کے بعد کسی فریق کو یکطرفہ رجوع اور یکطرفہ  طور پر صلح کامعاملہ ختم کرنے کا اختیار نہیں ہوتا ۔

لہذا صورت مسئولہ میں  کیا گیا معاہدہ شرعا درست اورجائز ہے، جس کی پابندی فریقین پرلازم ہے،  ایک فریق   کے معاہدے سے انحراف اور معاہدے کی شرائط پر عمل نہ کرنے  کی وجہ سے  معاہدہ ختم نہیں ہوا بلکہ  معاہدہ اب بھی قائم اور برقرار ہے۔

حوالہ جات
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (4/ 59)
إذا مات أحد الطرفين المتصالحين، أو كلاهما فليس لورثتهما فسخ صلحهما لأن الوارث يقوم مقام المورث فكما أنه ليس للمورث فسخه فليس للورثة أيضا فسخه .

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۵ رجب ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب