021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں بیٹوں کو ہبہ کی گئی دکانوں کا حکم
76044ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

1۔ایک بندہ کے چار بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔

2۔اپنی وفات سے تقریبا پندرہ سال پہلے والد کہتا ہے کہ چونکہ میرے چاروں بیٹے تعلیم و تعلم سے منسلک ہونے کی وجہ سے اپنا کوئی ذاتی ذریعہ معاش نہیں بناسکتے،اس لئے فلاں جگہ پر واقع چار دکانوں میں سے ایک ایک دکان اپنے ہر ایک بیٹے کو دیتا ہوں،تاکہ ان کی آمدن سے گزر بسر ہوتا رہے اور اس کے ساتھ والد مالکانہ حقوق جیسے قبضہ وغیرہ بھی بیٹوں کو دے دیتا ہے۔

3۔اسی طرح وفات سے تقریباً دس سال قبل والدوصیت کرتا ہے کہ ایک اور فلاں جگہ پر واقع دو دوکانیں( جو کہ نسبتاً بیٹوں کو دی جانے والی چار دوکانوں سے کم مالیت کی ہیں)،وہ میں چاروں بیٹیوں کو دیتا ہوں۔

4۔درج بالا بیان کردہ تفصیل مورث اپنی وفات سے تقریباً پندرہ اور دس سال قبل بحالت صحت و عافیت ،بلا جبر و اکراہ بیان کرتا ہے جس کو تمام ورثاء رضامندی سے تسلیم کر لیتے ہیں اور اس کے مطابق اسی وقت بعض جائیداد سرکاری ریکارڈ میں درج بھی کروا دی جاتی ہے۔

 5۔پھر وفات سے ایک روز قبل والد وصیت کرتا ہے کہ میری وراثت میں سے دس فیصد  %10حصہ ختم نبوت کے لیے وقف کر کے(درج بالا بیان کردہ تین جائیدادوں یعنی۔چار دوکانوں،مکان اور دو دوکانوں کے علاوہ،کہ وہ پہلی وصیت کے مطابق ہی رہیں گیں) بقیہ تمام جائیداد ورثاء میں تقسیم کر دی جائے۔

6۔والد کی وفات کے بعد وراثت کو درج بالا تفصیل کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے اور تمام ورثاء اس تقسیم کو رضامندی سے تسلیم کرتے ہوئے اپنے اپنے حصے وصول کر کے اپنے استعمال میں لے آتے ہیں جیساکہ آگے خرید وفروخت کرنا وغیرہ، اب قابل دریافت سوالات یہ ہیں کہ:

1۔وفات سے پہلے اس طرح اپنی جائیداد میں سے کچھ حصہ اولاد کو دینے کی شرعی حیٕثیت کیا ہوگی،کیا اسے وصیت کہا جائے گا؟

2۔کیا وفات سے دس پندرہ سال پہلے جائیداد میں سے بعض اولاد کو حصہ دینا درست ہے یا نہیں؟ اور والد کا یہ عمل نافذ ہوگا؟

3۔ اگر یہ تقسیم درست نہیں تو اس کو ٹھیک کرنے کا کیا طریقہ ہوگا؟ساری جائیداد کو از سر نو تقسیم کیا جائے گا یا صرف اس کو(چار دوکانیں۔مکان اور دو دکانیں) جس کی تقسیم نہیں ہوئی۔

4۔اگر کل جائیداد کو دوبارہ تقسیم کیا جاتا ہے تو اس میں کچھ مسائل پیش آ سکتے ہیں،مثلابعض فریقوں نے وہ حصہ جو ان کو والد کی طرف سے ملا تھا،فروخت کر دیا ہے،اسی طرح بعض کے حصہ کی مالی حیثیت وہ پہلے والی نہیں رہی،کسی کی تو بہت بڑھ گئی ہے اور کسی کی اس قدر نہیں۔

5۔وہ دوکانیں جو صرف بھائیوں کے حصہ میں آئی ہیں،ان کا آج تک جو کرایہ وغیرہ آیا ہے اس کا کیا حکم ہوگا اگر وہ دوبارہ تقسیم کے عمل میں آتی ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ مفتی غیب کا علم نہیں جانتا،وہ سوال میں لکھی گئی تفصیل کے مطابق جواب دیتا ہے،لہذا اگر سوال میں کوئی غلط بیانی ہو تو اس کا وبال سائل کے ذمے ہوگا۔

یہ سوال اسی سال صفر کے مہینے میں بھی پوچھا گیا تھا اور اس کا جواب بھی جاری ہوچکا تھا جو ساتھ لف کردیا گیا ہے،اب اس سوال کی بقیہ تفصیل تو حسب سابق ہے،البتہ سابقہ جواب کا مدار جس بات کو بنایا گیا تھا اس میں تبدیلی کی گئی ہے اور وہ یہ کہ سابقہ سوال میں تنقیح کے بعد بتایا گیا تھا کہ بیٹوں کو ہبہ کی گئی دکانیں تقسیم کرکے نہیں دی گئی تھیں،جبکہ دکانوں کی جگہ قابلِ تقسیم تھی،جبکہ اب یہ لکھا گیا ہے کہ ہبہ کرنے کے بعد والد کی زندگی میں ہی کاغذات بنواتے وقت ہر بیٹے کا حصہ طے کردیا گیا تھا،لہذا اگر یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ والد کی زندگی میں ہی دکانوں کی جگہ باقاعدہ تقسیم کرکے بیٹوں کے قبضے میں دے دی گئی تھی تو پھر وہ درست ہوگیا تھا اور والد کی وفات کے بعد دکانوں کی یہ جگہ ان کے ترکہ میں شامل نہیں تھی اور اس میں دیگر ورثہ کا حق نہیں تھا۔

حوالہ جات
"بدائع الصنائع " (6/ 121):
" ولو وهب شيئا ينقسم من رجلين كالدار والدراهم والدنانير ونحوها وقبضاه لم يجز عند أبي حنيفة وجاز عند أبي يوسف ومحمد وأجمعوا على أنه لو وهب رجلان من واحد شيئا ينقسم وقبضه أنه يجوز فأبو حنيفة يعتبر الشيوع عند القبض وهما يعتبرانه عند العقد والقبض جميعا فلم يجوز أبو حنيفة هبة الواحد من اثنين لوجود الشياع وقت القبض وهما جوزاها لأنه لم يوجد الشياع في الحالين بل وجد أحدهما دون الآخر وجوزوا هبة الاثنين من واحد".
"المغني لابن قدامة" (6/ 45):
"فصل: وتصح هبة المشاع. وبه قال مالك، والشافعي. قال الشافعي: سواء في ذلك ما أمكن قسمته؛ أو لم يمكن. وقال أصحاب الرأي: لا تصح هبة المشاع الذي يمكن قسمته؛ لأن القبض شرط في الهبة، ووجوب القسمة يمنع صحة القبض وتمامه. فإن كان مما لا يمكن قسمته، صحت هبته؛ لعدم ذلك فيه. وإن وهب واحد اثنين شيئا مما ينقسم، لم يجز عند أبي حنيفةوجاز عند صاحبيه".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

10/رجب1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب