021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدتِ وفات کے دوران ملازمت کے لئے گھر سے نکلنا
75896طلاق کے احکامعدت کا بیان

سوال

میری بہن کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ ملک سے باہر امریکہ میں مقیم ہے،جہاں ان کی کفالت کرنے والا کوئی نہیں اور نہ ہی ان کے علاوہ کوئی اور ذریعہ معاش اختیار کرنے والا،وہ خود کام کرتی ہے،اب دورانِ عدت کام کرنے کا کیا طریقہ کار ہوگا؟

کیا عدت کے دوران کام کی گنجائش ہوسکتی ہے،ان کے دو چھوٹے بچے ہیں،ایک چھ سال کا اور دوسری بچی تین ماہ کی،اس بارے میں راہنمائی درکار ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں اس خاتون کو ملازمت کے لئے گھر سے نکلنے کی گنجائش ہے،لیکن ملازمت کا وقت پورا ہوتے ہی گھر واپس لوٹنا لازم ہے،بلاضرورت گھر سے باہر رہنا جائز نہیں۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (3/ 536):
"(ومعتدة موت تخرج في الجديدين وتبيت) أكثر الليل (في منزلها) لأن نفقتها عليها فتحتاج للخروج، حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلا يحل لها الخروج فتح. وجوز في القنية خروجها لإصلاح ما لا بد لها منه كزراعة ولا وكيل لها".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ :"(قوله: في الجديدين) أي الليل والنهار فإنهما يتجددان دائما ط. (قوله: لأن نفقتها عليها) أي لم تسقط باختيارها، بخلاف المختلعة كما مر وهذا بيان للفرق بين معتدة الموت ومعتدة الطلاق. قال في الهداية: وأما المتوفى عنها زوجها فلأنه لا نفقة لها فتحتاج إلى الخروج نهارا لطلب المعاش وقد يمتد إلى أن يهجم الليل ولا كذلك المطلقة لأن النفقة دارة عليها من مال زوجها. اهـ.
قال في الفتح: والحاصل أن مدار حل خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره، فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها. اهـ".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

10/رجب1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب