021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بینک سے قسطوں پر مکان خریدنے کا حکم
76678جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

بینک سے قسطوں پر مکان لینا، اس طرح کہ ایک لاکھ یورو مکان کی قیمت طے ہوئی، جو ماہانہ قسطوں کی بنیاد پر دس سال میں ادا کی جائے گی، کیا اس طرح مکان لینا درست ہے؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ اگر دس سال میں مکمل قسطیں ادا نہ کرنے پر بینک جرمانہ  لگائے  تو پھر اس جرمانے کا کیا حکم ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر بینک سے مکان لینے کا مطلب یہ ہے کہ بینک  پہلے اپنے گھر خریدتا ہے پھر آپ کو گھر متعین قیمت پر  قسطوں میں  فروخت کرتا ہے  اور آپ ہر ماہ ان قسطوں کی ادائیگی کرتی ہیں تو اس طرح بینک سے گھر لینا جائز ہے اوراس صورت میں ادائیگی میں تاخیر کے  سبب بینک اگر  ایک خاص رقم   آپ سے بطور جرمانہ لے کر کسی مستحق ادارے کو  دے دیتا ہے اور معاملہ کرتے وقت آپ نے جرمانہ کی رقم صدقہ  کرنے کا اپنے اوپر التزام بھی   کیا ہو تو یہ بھی جائز ہے ،  البتہ اس جرمانے کی رقم کا بینک کیلئے خود استعمال کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس صورت میں یہ سود کی رقم بن جائے گی۔  چنانچہ بینک سے معاملہ کرتے وقت اگر  یہ معلوم ہو کہ بینک تاخیر کی صورت میں جرمانہ لگا کر خود استعمال میں لائے گا تو اس طرح معاملہ کرنا بھی شرعا درست نہ ہو گا، اور اگر بینک آپ کو مکان کیلئے محض رقم  قرض دیتا ہے، یعنی  خود  گھر فروخت نہیں کرتا اور نہ گھر  کی ملکیت میں شریک  ہوتا ہے   تو اس صورت میں اگر جتنی رقم بینک نے دی ہے اتنی ہی واپس لیتا ہے  اور تاخیر کے سبب مزید جرمانہ نہیں لگاتا تو اس صورت میں بھی آپ کیلئے اس  بینک سے معاملہ کرنا درست ہے، البتہ اگر اس صورت میں وہ قرض کی  رقم سے زیادہ وصول کرے یا   تاخیر کے سبب جرمانہ لگائے تو دونوں صورتوں میں یہ  سودی قرض کا معاملہ بن جائے گا، چنانچہ آپ کے لئے بینک سے اس طرح کا معاملہ کرنا جائز نہ ہو  گا۔

حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي:(3/ 24)
قال: "ويجوز البيع ‌بثمن ‌حال ومؤجل إذا كان الأجل معلوما" لإطلاق قوله تعالى: {وأحل الله البيع وحرم الربا} [البقرة:275] وعنه عليه الصلاة والسلام "أنه اشترى من يهودي طعاما إلى أجل معلوم ورهنه درعه". ولا بد أن يكون الأجل معلوما؛ لأن الجهالة فيه مانعة من التسليم الواجب بالعقد، فهذا يطالبه به في قريب المدة، وهذا يسلمه في بعيدها۔
بحوث فی قضایا فقھیۃ معاصرۃ، ط: مکتبۃ دار العلوم کراتشی (1/15 ):
و مما یجب التنبیه علیه هنا: ان ما ذكر من جواز هذا البیع انما هو منصرف الی زیادۃ فی الثمن فی نفسه، اما مایفعله بعض الناس من تحدید ثمن البضاعۃ علی اساس سعرالنقد، وذكر القدر الزائد علی انه جزء من فوائد التاخیر فی الاداء، فانه ربا صراح، وهذا مثل ان یقول البائع: بعتك هذه البضاعۃ بثمانی ربیات نقدا، فان تاخرت فی الاداء الی مدۃ شهر، فعلیك ربیتان علاوۃ علی الثمانیۃ، سواء سماها فائدۃ (Interest) او لا، فانه لا شك فی كونه معاملۃ ربویۃ، لان ثمن البضاعۃ انما تقرر كونه ثمانیۃ، وصارت هذه الثمانیۃ دینا فی ذمۃ المشتری، فما یتقاضی علیه البائع من الزیادۃ فانه ربا لا غیر.
المعايير الشرعية ، المعيار الشرعي رقم ( ٣) (٩٤ص):
يجوز أن ينص في عقود المداينة؛ مثل المرابحة، على التزام المدين عند المماطلة بالتصدق بمبلغ أو نسبة من الدين بشرط أن يصرف ذلك في وجوه البر عن طريق المؤسسة بالتنسيق مع هيئة الرقابة الشرعية للمؤسسة.

محمد انس جمیل

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

‏11، رجب المرجب 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب