021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عشر کی ادائیگی کے وقت منہا کیے جانے والے اخراجات کی تفصیل اور ضابطہ
76073زکوة کابیانعشر اور خراج کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ جس علاقے میں ہمارا مدرسہ ہے وہاں گنے کی فصل بکثرت ہوتی ہے۔ گنے کی فصل زمین میں تقریباً ایک سال تک رہتی ہے، جس پر دوران سال مختلف قسم کے خرچے ہوتے ہیں، مثلاً  کھاد، اسپرے، پانی، اور حفاظت وغیرہ۔ اسی طرح فصل تیار ہونے کے بعد بھی مختلف قسم کے خرچے ہوتے ہیں ، جس میں چار طرح کی لیبر میں ( مزدوروں کی ایک جماعت ) کام کرتی ہیں ۔

 (1) کٹائی والی لیبر : اس لیبر کا کام یہ ہو تا ہے کہ گنے کو زمین سے کاٹ کر اس سے زائد پتے وغیرہ صاف کر کے اس کو باندھنا، اس لیبر کی اجرت تقریباً 22 روپے فی من ہوتی ہے۔

(2) گدھا گاڑی والی لیبر : اس لیبر کا کام یہ ہو تا ہے کہ کٹے ہوئے گنے کو گدھا گاڑی پر لاد کر زمین سے مین روڈ تک لانا، اس لیبر کی اجرت فی من تقریباً 7 روپے ہوتی ہے۔

(3) لوڈنگ والی لیبر: اس لیبر کا کام یہ ہوتا ہے کہ گنے کو ٹریکٹر ٹرالی پر لادنا، اس لیبر کی اجرت تقریباً فی من 6 روپے ہوتی ہے۔

(44) ٹریکٹر ٹرالی لیبر : اس کا کام گنے کو شو گر ملز تک پہنچانا ہو تا ہے، اس کی اجرت تقریباً فی من 13 روپے ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ ایک ٹرالی پر کم از کم 600 من گنا لوڈ کر کے ملز تک پہنچایا جاتا ہے، اور ملز پر موجودہ ریٹ 225 روپے فی من ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل کے بعد عرض یہ ہے کہ گنے کی فصل کا عشر ادا کرتے وقت مذکورہ خرچوں میں سے کون سے  منہا کیے جائیں گے اور کون سے نہیں ؟ اس تفصیل کی وجہ یہ ہے کہ مختلف فتاویٰ جات میں ،

ولاتحسب اجرة العمال، و نفقة البقر، و كرى الانهار، واجرة الحافظ وغير ذلك فيجب اخراج الواجب من جميع ما اخرجته الارض عشراأونصفا، كذافى بحر الرائق۔

( الفتاوى الهندية ج 1 ص 249)

وغیر ہ عبارات سے استدلال کرتے ہوئے  یہ حکم بیان کیا گیا ہے کہ لیبر نمبر (2) گدھا گاڑی والی لیبر اور لیبر نمبر (4) ٹریکٹر ٹرالی والی اجرت کو منہا کیا جا سکتا ہے، جبکہ لیبر نمبر (1)کٹائی والی لیبر اور لیبر نمبر (3)لوڈنگ والی لیبر کا کوئی حکم واضح نہیں کیا گیا کہ یہ خرچے منہا  کیے جا سکتے ہیں یا نہیں؟ جبکہ مذکورہ عبارت سے معلوم ہو تا ہے کہ اجرت عمال منہا نہیں کی جائے گی اور لیبر نمبر (1) کٹائی والی اور نمبر (3) لوڈنگ والی بھی بظاہر اجرت عمال ہیں، تو یہ دو اجرتیں منہا کی جائیں گی یا نہیں؟ اگر کی جاسکتی ہیں تو کس اصول کی بنیاد پر؟ نیز گدھا گاڑی اور ٹریکٹر ٹرالی کی اجرت کس اصول کی بنیاد پر منہا کی جاتی ہے، تاکہ متعین اصول کو مد نظر رکھا جا سکے۔ از راہ کرم شریعت مطہرہ کی روشنی میں تسلی بخش، تحقیقی  اور  با حوالہ جواب عنایت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زرعی زمین کی پیداوار کا عشر (بارانی زمین کی صورت میں) یا نصف عشر  (نہر، نالہ  و تالاب کے ذریعے آبپاشی کی  صورت میں)  کی ادائیگی کے وقت کون سے اخراجات کل پیداوار میں سے نکالے جائیں گے اور کون سے اس میں شامل رہیں گے، اس کے متعلق تفصیل اور ضابطہ یہ ہے کہ زمینی پیداوار سے متعلق اخراجات دو قسم کے ہیں ۔

پہلی قسم کے اخراجات وہ ہیں جو زمین کو کاشت کے قابل بنانے سے لے کر پیداوار حاصل ہونے اور اس کو سنبھالنے تک ہوتے ہیں۔ یہ وہ اخراجات  ہوتے ہیں جو زراعت کے امور میں داخل ہوتے ہیں اور پیداوار کو حاصل کرنے  کیلئے ان کی ضرورت  ہو تی ہے، مثلاً:  زمین کو ہم وار کرنے، ٹریکٹر چلانے، کاشتکاری کرنے والے، اس  کو کاٹنے والے، اس کی حفاظت کرنے والے  اور اس کو سنبھال کر رکھنے والے مزدوروں  کی اجرت وغیرہ۔ یہ وہ اخراجات ہیں جو عشر یا نصف عشر ادا کرنے سے پہلے منہا نہیں کیے جائیں گے، بلکہ عشر  اخراجات نکالنے سے پہلے  پوری پیداوار سے ادا کیا جائے گا۔

دوسری قسم کے اخراجات وہ ہیں جو درج بالا امور کے بعد واقع ہوتے ہیں، یعنی پیداوار کی کٹائی  کے بعد کے  وہ اخراجات جو زراعت کے امور میں اصلا داخل  نہیں  ہوتے اور پیداوار  کے حصول کیلئے ان امور کی ضرورت نہیں ہوتی ، جیسے پیداوار کو گدھا گاڑی کے ذریعے  مین روڈ تک پہنچانے اور   پھر وہاں سے منڈی تک پہنچانے کیلئے  ٹریکٹر ٹرالی   کا کرایہ، اسی طرح پیکنگ  اور بازار تک پہنچانے کیلئے کی جانے والی لوڈنگ وغیرہ کے جو اخراجات  آئیں تو ایسے اخراجات  عشر ادا کرنے سے پہلے کل پیداوار میں سے منہا کیے جا سکتے ہیں ۔

اس تفصیل کے بعد یہ سمجھیے کہ  فتاویٰ ہندیہ  کی درج بالا  اور  فقہ کی دیگر کتابوں کی عبارتوں میں جن مزدوروں کی اجرت  کے اخراجات کو منہا کرنے کی نفی مذکور ہے اس سے مراد  پہلی قسم کے اخراجات ہیں اس لئے کہ عشر اور نصف عشر کا تعلق اسی پیداوار سے ہوتا ہے جو کہ تیار ہونے کے بعد کاٹ  کر کھیتوں سے کسی محفوظ جگہ تک پہنچا دی گئی ہو تاکہ پھر اس کا عشر  ادا کیا جا سکے، چنانچہ اخراجات بھی وہیں تک کے  منہا نہیں کئے جائیں گے۔  

چنانچہ سوال میں ذکر کردہ چاروں قسم کی لیبر میں سے صرف  نمبر (1) یعنی کٹائی والی لیبر کے اخراجات کو منہا نہیں کیا جائے گا اور باقی تینوں اخراجات کو عشر کی ادائیگی سے پہلے  منہا کیا جا سکتا ہے۔    اعداد کے حساب سے بات کی جائے  تو  اگر ابھی تک عشر ادا نہیں کیا گیا تو  (225*600) کے حساب سے 135,000 روپے میں سے  آخری تینوں اخراجات یعنی 15,600 روپے نکال کر 119,400روپے میں سے عشر  (11,940روپے )ادا کیا جائے گا۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ درج بالا حساب ایک ٹرالی پر آنے والے 600 من گنے کے مطابق لگایا گیا ہے۔  

حوالہ جات
المبسوط للسرخسي:(3/ 2)
قال): الأصل في وجوب العشر قوله تعالى {أنفقوا من طيبات ما كسبتم ومما أخرجنا لكم من الأرض} [البقرة: 267] قيل المراد بالمكسوب مال التجارة ففيه بيان زكاة التجارة، والمراد بقوله، ومما أخرجنا لكم من الأرض العشر. وقال الله تعالى: {وآتوا حقه يوم حصاده} [الأنعام: 141] وقال: - صلى الله عليه وسلم - «ما أخرجت الأرض ففيه العشر»، ثم الأصل عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أن كل ما يستنبت في الجنان ويقصد به استغلال الأراضي ففيه العشر الحبوب والبقول والرطاب والرياحين والوسمة والزعفران والورد والورس في ذلك سواء، وهو قول ابن عباس - رضي الله عنه - وقد روي أنه حين كان واليا بالبصرة أخذ العشر من البقول من كل عشر دستجات دستجة وأخذ فيه أبو حنيفة بالحديث العام «ما سقت السماء ففيه العشر وما أخرجت الأرض ففيه العشر» وكان يقول: العشر مؤنة الأرض النامية كالخراج فكما أن هذا كله يعد من نماء الأرض في وجوب الخراج فكذلك في وجوب العشر.
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 216):
(قبل رفع مؤن الزرع) بضم الميم وفتح الهمزة جمع المؤنة وهي الثقل والمعنى بلا إخراج ما صرف له من نفقة العمال والبقر وكري الأنهار وغيرها مما ‌يحتاج ‌إليه ‌في ‌الزرع لإطلاق قوله - عليه الصلاة والسلام - «فيما سقته السماء العشر وفيما سقي بالسانية نصف العشر» ؛ ولأنه - عليه الصلاة والسلام - حكم بتفاوت الواجب لتفاوت المؤن فلا معنى لرفعها هذا قيد لمجموع العشر ونصفه كما لا يخفى.
حاشية ابن عابدين :(2/ 328)
(قوله: بلا رفع مؤن) أي يجب العشر في الأول ونصفه في الثاني بلا رفع أجرة العمال ونفقة البقر وكري الأنهار وأجرة الحافظ ونحو ذلك درر قال في الفتح يعني لا يقال بعدم وجوب العشر في قدر الخارج الذي بمقابلة المؤنة بل يجب العشر في الكل؛ لأنه - عليه الصلاة والسلام - حكم بتفاوت الواجب لتفاوت المؤنة ولو رفعت المؤنة كان الواجب واحدا وهو العشر دائما في الباقي؛ لأنه لم ينزل إلى نصفه إلا للمؤنة والباقي بعد رفع المؤنة لا مؤنة فيه فكان الواجب دائما العشر لكن الواجب قد تفاوت شرعا فعلمنا أنه لم يعتبر شرعا عدم عشر بعض الخارج وهو القدر المساوي للمؤنة أصلا اهـ وتمامه فيه (قوله: وبلا إخراج البذر إلخ) قيل هذا زاده صاحب الدرر على ما في المعتبرات وفيه نظر اهـ وجوابه أنه داخل في قولهم ونحو ذلك.
فتاوى تاتارخانية، ط: زكريا (3/292):
إذا كانت الأرض عشريةً فأخرجت طعاماً وفي حملها إلى الموضع الذي يعشر فيه مؤنة فإنه يحمله إليه ويكون المؤنة منه.

محمد انس جمیل

دارالافتاء جامعۃالرشید کراچی

24، رجب المرجب1443 ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب