021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دوسری طلاق کے بعد عدت کے دوران رجوع کرنا
76094طلاق کے احکامطلاق سے رجو ع کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ میں:

میں نے اپنی بیوی کو ڈیڑھ سال قبل طلاق دی تھی، دوران عدت رجوع کرلیا تھا، اس کے بعد ہم ایک سال تک خوش اسلوبی سے رہتے رہے۔ اس کے بعد ناچاقی ہوگئی اور میں نے غصہ میں ایک اور طلاق دے دی۔اب اس دوسری طلاق کو چار ماہ گزرچکے ہیں، دوسری طلاق کے تقریبا ایک ماہ بعد میں اپنی بیوی سے ملا اور میں نے کہا تم میری بیوی ہو، میرے ساتھ گھر چلو، یہ کہہ کر میں اپنی بیوی سے رجوع کرنا چاہتا تھا،اس وقت گواہان بھی موجود تھے، آیا یہ میرا شرعی رجوع شمار ہوگا؟

میں نے مسئلہ معلوم کیا تھا، اس کے مطابق دوسری طلاق کے بعد  دوران عدت رجوع کیا جائے تو نئے نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی اور اگر عدت گزر جائے تو پھر نیا نکاح کرنا ہوگا۔

اس کے ساتھ مفتی صاحب یہ بتادیجئے گا کہ یہ لفظ رجوع کا کیا معنی بنتا ہے اور عموما اس لفظ سے کیا مراد لیا جاتا ہے؟

برائے مہربانی اس بابت شرعی رہنمائی فرمائیں!

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ایک یا دو طلاق رجعی کے بعد دوران عدت اگر کوئی اپنی بیوی سے رجوع کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اس صورت میں پہلے والا عقد نکاح برقرار رہتا ہے، نئے نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی، چونکہ حمل نہ ہونے کی صورت میں  ایک ماہ کے اندر عدت کا دورانیہ مکمل نہیں ہوتا ہے، اس لئے صورت مسؤلہ میں مذکورہ بالا الفاظ سے عدت کے اندر آپ نے اپنی بیوی  سےجو رجوع کیا ہے، وہ رجوع شرعا معتبر ہے،لہذا مسؤلہ صورت میں نئے نکاح کے بغیر عورت حسب سابق آپ کی زوجہ ہے۔

رجوع کا لغت میں معنی ہے "لوٹنا"

طلاق کے باب میں رجوع سے مراد یہ ہے کہ شوہر عورت کی عدت کے دوران زبان سے عورت کے پاس واپس لوٹنے یا عورت کو دوبارہ اپنی زوجیت میں لینے پر دلالت کرنے والے الفاظ زبان سے اداکردے، یا عملی طور پر بیوی کے ساتھ ہمبستری وغیرہ کرلے۔

حوالہ جات
oالهداية في شرح بداية المبتدي (2/ 254)
 وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض " لقوله تعالى: {فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ} [البقرة: 231] من غير فصل ولا بد من قيام العدة لأن الرجعة استدامة الملك ألا ترى أنه سمى إمساكا وهو الإبقاء وإنما يتحقق الاستدامة في العدة لأنه لا ملك بعد انقضائها " والرجعة أن يقول راجعتك أو راجعت امرأتي " وهذا صريح في الرجعة ولا خلاف فيه بين الأئمة.
الهداية في شرح بداية المبتدي (2/ 254)
قال: " ويستحب أن يشهد على الرجعة شاهدين فإن لم يشهد صحت الرجعة " وقال الشافعي رحمه الله في أحد قوليه لا تصح وهو قول مالك رحمه الله لقوله تعالى: {وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ} [الطلاق:2] والأمر للايجاب ولنا إطلاق النصوص عن قيد الاشهاد ولأنه استدامة للنكاح والشهادة ليست شرطا فيه في حالة البقاء كما في الفيء في الإيلاء إلا أنها تستحب لزيادة الاحتياط كيلا يجري التناكر فيها وما تلاه محمول عليه ألا ترى أنه قرنها بالمفارقة وهو فيها مستحب ويستحب أن يعلمها كيلا تقع في المعصية.

محمدنصیر

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

  28،رجب المرجب،1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نصیر ولد عبد الرؤوف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب