76104 | طلاق کے احکام | تین طلاق اور اس کے احکام |
سوال
برائے مہربانی درخواست ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے اس طلاق نامہ کے بارے میں بتائیں کہ کیا اس سے طلاق واقع ہو چکی ہے یا نہیں؟ یہ جب لکھا جا رہا تھا تو لڑکی کی زبان کے مطابق دونوں موجود تھے اور ان کے سامنے یہ معاملہ طے پایا تھا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں فریق اول نے جرگہ کے سامنے جو تین طلاقیں دی ہیں، ان سے عورت پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور ان دونوں کا نکاح مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے ، چنانچہ بغیر حلالہ شرعی کے عورت اپنے شوہر سے دوبارہ نکاح نہیں کر سکتی۔ لہذا اپنی عدت پوری گزارلینے کے بعد عورت جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔
حوالہ جات
القرآن الكريم :
﴿فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ﴾ [البقرة: 230]۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:(3/ 187)
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة؛ لأن أهل التأويل اختلفوا في مواضع التطليقة الثالثة من كتاب الله قال بعضهم هو قوله تعالى {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] بعد قوله {الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان} [البقرة: 229] وقالوا: الإمساك بالمعروف هو الرجعة، والتسريح بالإحسان هو أن يتركها حتى تنقضي عدتها۔
محمد انس جمیل
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
27، رجب المرجب 1443 ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد انس ولدمحمد جمیل | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |