021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک ہی مجلس میں تین طلاق دینے کا حکم
76098طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

مفتی صاحب مجھے ایک مسئلے پر آپ سے فتوی چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ 5 اپریل کو عشاء کے وقت میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی تھی۔ انھوں نے ایک ہی نشست میں تین بار کہا تھا کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ۔ تو مجھے پوچھنا یہ ہے کہ کیا مجھے طلاق ہوگئی ہے ؟کیونکہ میرے شوہر اور میرے سسرال والے اس طلاق کو ماننے کے لئیے تیار نہیں ہیں ۔ شادی کے وقت میرے شوہر ذہنی مریض تھے۔ ان کا علاج کروایا تھا اور اب وہ ٹھیک ہیں الحمدالله پر جب وہ غصے میں ہوتے ہیں تو سارا غصہ ان کا مجھ پہ اور میرے دو سال کے بیٹے پر نکلتا ہے ۔ باقی سب لوگوں سے وہ بالکل ٹھیک طرح سے پیش آتے ہیں اور دفتری امور بھی بہت اچھی طرح سے انجام دیتے ہیں۔برائے مہربانی مجھے تحریری فتوی بھیج دیں تاکہ میں اپنے سسرال بھیج سکوں ۔

نوٹ: میں عدت کے لئے اپنی امی کے گھر آئی ہوئی ہوں کیونکہ وہاں مجھے اپنے شوہر کے ہی کمرے میں رہنا پڑ رہا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں آپ کے شوہر نے جو ایک ہی مجلس میں  آپ کو تین طلاقیں دی ہیں، ان سے آپ  پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور آپ کا نکاح مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے ، چنانچہ بغیر حلالہ شرعی کے  آپ اپنے شوہر سے  دوبارہ نکاح نہیں کر سکتیں۔  تین طلاق دینے کی صورت میں عورت مغلظہ ہو جاتی ہے اور مغلظہ کے ذمہ لازم ہے کہ وہ  شوہر ہی کے گھر میں اس سے پردہ کرتے ہوئے اپنی عدت پوری کرے، چنانچہ اگر  گھر میں جگہ نہ ہو تو شوہر کو چاہیے کہ عدت پوری ہونے تک کسی اور جگہ رہائش اختیار کرلے  ۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو پھر ضرورت کی وجہ سے عورت اپنے گھر بھی عدت گزار سکتی ہے۔

حوالہ جات
القرآن الكريم :
﴿فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ﴾ [البقرة: 230]۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:(3/ 187)
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة؛ لأن أهل التأويل اختلفوا في مواضع التطليقة الثالثة من كتاب الله قال بعضهم هو قوله تعالى {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] بعد قوله {الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان} [البقرة: 229] وقالوا: الإمساك بالمعروف هو الرجعة، والتسريح بالإحسان هو أن يتركها حتى تنقضي عدتها۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 536):
(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه.

محمد انس جمیل

دارالافتاء جامعۃالرشید کراچی

27، رجب المرجب 1443 ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب