021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق نامےپربلانیت دستخط کرنےسےطلاق کاحکم
76095طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

گزارش یہ ہےکہ آپ سےایک مسئلےکےمتعلق سوال کرناچاہتاہوں،آپ شرعی طورپرتحریری فتوی کی صورت میں رہنمائی فرمائیں۔

مسئلہ کچھ اس طرح کاہےکہ میں نےاپنی زوجہ کےنام تحریری طلاق نامےپردستخط کیےہیں،جس میں نہ ہی میری طلاق کی نیت تھی اورنہ ہی میرےہاتھ میری زبان کی ترجمانی(عکاسی)کررہےتھے،بلکہ دستخط کےوقت میں شدید ذہنی دباؤ کاشکار تھا،کیونکہ میرےتایاکےبیٹوں نےمجھ پردباؤ ڈالاتھااوریوں دھمکی دی تھی کہ:

1. تمہیں اورتمہارےماں،باپ کوگھرسےنکال دیں گے( گھرتایاکی ملکیت میں ہےاورانہوں نےہماری فیملی کواپنےگھرمیں بغیرکرایےکےرہنےکی اجازت دی ہوئی ہے،اورہمارےپاس اپناذاتی گھرنہیں ہےاورنہ ہی ماہانہ کرایہ برداشت کرنےکی صلاحیت ہے)۔

2. تمہاری نوکری ختم کروادیں گے(کیونکہ ان کی میرےبوس سےجان پہچان ہے)۔

3. بیوی سےصلح کی کوشش کی یاطلاق نامےپردستخط نہ کیےتوہم تمہیں ماریں گے،اورتمہارے ہاتھ پیر توڑدیں گے۔

مزیدیہ کہ مجھےمیری زوجہ اوران کےگھر والوں سےرابطہ نہیں کرنےدیاگیا،ہمیں آپس میں بات تک نہیں کرنےدی گئی اورمجھے میرےسسرال کےگھرتک جانےسےروکاگیااوردونوں فریقین کےدرمیان تایاکے بیٹوں نےغلط باتیں اوربدگمانیاں پھیلادی(یعنی ہمیں سسرال والوں کےخلاف اکسایاکہ وہ تمہارے خلاف اس طرح،اس طرح کی باتیں کررہے تھے،اوران کوہمارے خلاف اکسایاکہ لڑکےوالے تمہارے بارے میں اس طرح،اس طرح کی باتیں کررہےتھےتاکہ ہمارے درمیان ناچاقیاں مزیدبڑھ جائیں)اور مجھےسسرال والوں سےرابطہ کرنےپردھمکی دی گئی،ان حالات کی وجہ سےمیں اس وقت شدید ذہنی دباؤ کاشکارتھاجس کےبارےمیں میرےوالدین گواہ ہیں۔

ان تمام باتوں کومدنظر رکھتےہوئے میں نےپیپر پردستخط کیے،اوردستخط  کرتے وقت میں دل میں یہ کہ رہاتھاکہ اےاللہ!توجانتاہےمیں ایسا نہیں کرناچاہتا،اورتوجانتاہےمیں دستخط نہیں کرناچاہتا..مجھ سے کروائےجارہےہیں اور میں نےبغیرپڑھےکاغذات پرکانپتےجسم اورروتےہوئےدستخط کردیئےجبکہ زبان سےکوئی الفاظ نہیں کہے۔  دستخط کرتے وقت یہ بات میرے ماں باپ جانتے تھے میں دستخط نہیں کرناچاہتا۔ مگر وہ بھی ان باتوں، غلط بیانیوں اور دھمکیوں کی وجہ سےمجبور تھے،دستخط کےبعدتایاکےبیٹوں نےوہ پیپرمجھ سےلےکراپنے پاس رکھ لیے،پھرانہوں نےمیری اجازت کےبغیرخودہی وہ پیپزرمیرےبیوی تک پہنچاےدیئے۔

لہٰذا آپ قرآن وسنت کی روشنی میں درج بالامسئلےکاجوابی فتوی تحریرفرمادیں۔

(تنقیح:شوہرکویہ بات معلوم تھی کہ میں طلاق نامہ پردستخط کررہاہوں)۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جواب سےپہلےدوباتیں تمہیدکےطورپرسمجھ لینی چاہیے:

  1. شرعاًجس طرح بیوی کوزبان سےطلاق دینےسےطلاق واقع ہوجاتی ہے،اسی طرح مرسوم کتابت یعنی  بیوی کےنام آفیشل(Official) طریقےسےتیارکیےگئےطلاق نامہ پردستخط کرنےسےبھی طلاق واقع ہوجاتی ہے،اگرچہ دستخط کرتےوقت طلاق کی نیت نہ ہواور طلاق نامہ بیوی  کے پاس نہ بھجوائے۔ مثلاًطلاق نامہ  یااسٹامپ پیپر پرطلاق کےعنوان کےساتھ بیوی کےنام تیارکردہ ڈاکیومنٹ پردستخط کردے۔
  2. شرعاًجبرواکراہ(زورزبردستی)،مدہوشی اورطلاق نامہ کاعلم نہ ہونےکی صورت میں بیوی کےنام بغیرنیت کےطلاق نامہ پردستخط کرنے سےطلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔

درج بالاتمہیدکےبعدسوال کاجواب یہ ہےکہ صورت مسؤلہ میں اگرشوہرمدہوشی کی حالت تک ذہنی دباؤکاشکارتھایاشوہرکویہ غالب گمان تھاکہ اگروہ طلاق نامہ پردستخط نہ کرتاتوتایاکےبیٹےہاتھ پیرتوڑدیتے، یاشدیدقسم کی پٹائی کرتے،تودرج بالا صورت میں بیوی پرطلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 236):
فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا، كذا في الخانية۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 246):
 (قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني
بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة. وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب: إذا جاءك كتابي فأنت طالق فجاءها الكتاب فقرأته أو لم تقرأ يقع الطلاق كذا في الخلاصة ط (قوله إن مستبينا) أي ولم يكن مرسوما أي معتادا وإنما لم يقيده به لفهمه من مقابلة وهو قوله: ولو كتب على وجه الرسالة إلخ فإنه المراد بالمرسوم۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 246):
 (قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني
بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة. وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب: إذا جاءك كتابي فأنت طالق فجاءها الكتاب فقرأته أو لم تقرأ يقع الطلاق كذا في الخلاصة ط (قوله إن مستبينا) أي ولم يكن مرسوما أي معتادا وإنما لم يقيده به لفهمه من مقابلة وهو قوله: ولو كتب على وجه الرسالة إلخ فإنه المراد بالمرسوم۔
الفتاوى الهندية (1/ 353،379):
ولا يقع طلاق الصبي وإن كان يعقل والمجنون والنائم والمبرسم والمغمى عليه والمدهوش هكذا في فتح القدير. وكذلك المعتوه لا يقع طلاقه أيضا وهذا إذا كان في حالة العته أما في حالة الإفاقة فالصحيح أنه واقع هكذا في الجوهرة النيرة.۔۔۔رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأته كذا في فتاوى قاضي خان.
فتاوى قاضيخان (1/ 234):
رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلأنة بنت فلأن ابن فلأن فكتب امرأته فلأنة بنت فلأن بن فلأن طالق لا تطلق امرأته لأن الكابة أقيمت مقالم العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة ههنا۔

محمدعمربن حسین احمد

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

28رجب المرجب1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر ولد حسین احمد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب