021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کے بعد عدالتی خلع لینے کا حکم
79711طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

صورت مسئلہ یہ ہے کہ ایک خاتون  اور اُن کے شوہر کئی سال سے خاتون کے میکے والوں کی طرف سے دیئے گئے گھر میں رہ رہے تھے۔ایک روز خاتون نے شوہر سے کہا کہ آپ میرے میکے والوں کو مکان کا کرایہ دیا کریں۔اِس پر شوہر نے کرایہ دینے سے انکار کر دیا اور میاں بیوی کی آپس میں ناچاکی بڑھ گئی جِس پر شوہر نے کہا کہ میں کرایہ نہیں دے سکتا ہوں،میں اپنے گھر میں شفٹ ہو جاؤں گا تم اور ہماری بچی اِدھر ہی رہو،بچی کے امتحانوں کے بعد تم بھی میرے گھر میں آجانا جو کہ شوہر کا ذاتی گھر تھااس پر بیوی راضی نہیں ہوئی اور بیوی نے شوہر کو کہہ دیا کہ آپ یہاں سے اپنا سامان لے کر جانا چاہیں تو چلے جائیں اور شوہر اپنا سامان لے کر چلے گئے۔بیوی کے میکے والوں کو جب پوری بات کا علم ہوا تو وہ ناراض ہو گئے اور اپنی بیٹی کو شوہر کے گھر جانے نہیں دیا کہ پہلے اپنے بڑوں کو لے کر آؤ بیٹھ کر بات کریں گے اُس کے بعد ہماری بیٹی آپ کے ساتھ جائے گی۔شوہر کا مسلسل ایک ہی مطالبہ تھا بیوی سے کہ تم میرے گھر میں آجاؤ لیکِن بیوی نہیں گئی ڈیڑھ سال تک یہ بحث چلتی رہی۔

بیوی نے کہا کہ مسئلہ حل کرنے کے لئے بڑے بیٹھ کر بات کریں گے اس کے بعد ہم آپ کے گھر جائیں گے۔نہ ہی خاوند اپنے گھر والوں میں سے کسی کو بلا کر لائے اور نہ ہی کوئی مسئلہ کا حل نکالا۔جب کہ خاوند ، بیوی اور بچی کو نان نفقہ بھی نہیں دے رہے تھے۔(سوائے اس کے کہ کبھی کبھی اپنی بچی کو کُچھ دے دیا)

اِسی دوران شوہر فون پر بیوی کو اپنی دوسری شادی کی تیاریوں کے بارے میں بتاتے تھے۔ بیوی بھی تنگ آ گئی تھی اور طلاق کا مطالبہ کرنے لگ گئی تھی۔شوہر نہ تو طلاق دے رہے تھے اور نہ ہی اپنے گھر والوں کو بلا کر لائے۔ڈیڑھ سال تک یہ بحث و مباحثہ ہوتا رہا۔اور ایک دن شوہر نے بیوی کو دوسری عورت کی تعریفیں اور دوسرے نکاح کے بندھن میں بندھنے کے بارے میں بتایا کہ وہ عنقریب دوسری شادی کر رہے ہیں۔بیوی نے عدالت سے رجوع کر لیااور خلع کا مقدمہ دائر کر دیا۔یہ واقعہ مئی 2021 میں ہوا۔اور ابھی تک عدالت نے شوہر کو ایک بھی نوٹس بھیجا نہیں تھا کہ شوہر نے بیوی کے میکے آ کر زبانی ایک طلاق دے دی یہ جون 2021 میں ہوا۔

کیس چلتا رہا عدالت نوٹس جاری کرتی رہی، شوہر ایک بھی پیشی پر حاضر نہیں ہوئے اور ستمبر 2021 میں عدالت نے یک طرفہ خلع کی ڈگری بیوی کو دے دی اور غالبا اسی خلع کی ڈگری سے نکاح رجسٹریشن بھی ختم ہو گئی تھی۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ ایک طلاق ہوئی جو شوہر نے دی تھی؟یا پھر عدالت کی طرف سے دی گئی خلع کی ڈگری بھی شرعی حیثیت رکھتی ہے؟ تو کیا یہ دونوں ملا کر اس طرح دو طلاقیں ہو گئی ہیں؟

اور دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ قانونی چارہ جوئی کے حوالے سے بھی آگاہ فرما دیجئے کہ اب اگر یہی میاں بیوی ڈیڑھ سال کے بعد دوبارہ نکاح کرنا چاہتے تو کیا اِنہیں نئے نکاح رجسٹریشن کی ضرورت ہوگی؟ اور نکاح نامہ کِس طرح کا ہوگا عام نکاح فارم ہی ہوگا یا پھر اس کے لئے کوئی دوسرے طرح کا نکاح نامہ ہوتا ہے تجدید نکاح کے نام سے یا کِسی اَور نام سے؟

وضاحت: سائلہ نے بتایا کہ عدالتی خلع لینے کی اور کوئی وجہ نہیں تھی، بس یہی تفصیل ہے جو سوال میں لکھی ہے، البتہ شوہر نے یہ کہا تھا کہ میں طلاق نہیں دوں گا،جاؤ عدالت سے لے لو۔ نیز یہ بھی بتایا کہ عدالت کا فیصلہ طلاق کی عدت مکمل ہونے کے بعد آیا تھا اور شوہر نے عدت کے دوران رجوع بھی نہیں کیا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  1. سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق عدالت کا فیصلہ طلاق کی عدت مکمل ہونے کے بعد جاری ہوا تھا، جبکہ پہلی طلاق کی عدت مکمل ہونے سے زوجین کے درمیان شرعاً نکاح ختم ہو چکا تھا، اس لیے اس کے بعد جاری ہونے والا عدالت کا مذکورہ فیصلہ شرعاً معتبر نہیں، لہذا  پہلے والی طلاق ہی شرعاً معتبر اور واقع ہوئی ہے، اب فریقین باہمی رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں  نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں اور دوبارہ نکاح کرنے کے بعد خاوند کو صرف دو طلاقوں کا حق باقی ہو گا، اس لیے آئندہ طلاق کے معاملے میں احتیاط کی ضرورت ہو گی۔
  2. دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں رجسٹریشن کے سلسلہ میں آپ کسی وکیل سے رابطہ کرلیں کہ آیا قانونی طور پر  دوبارہ نکاح کی رجسٹریشن ضروری ہے یا نہیں؟

     

حوالہ جات
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (2/ 197) المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة:
(باب الطلاق) الطلاق ضربان صريح وكناية فالصريح ما ظهر المراد منه ظهورا بينا حتى صار مكشوف المراد بحيث يسبق إلى فهم السامع بمجرد السماع حقيقة كان أو مجازا ومنه الصرح للقصر لظهوره قال - رحمه الله - (الصريح هو كأنت طالق ومطلقة وطلقتك) لأن هذه الألفاظ يراد بها الطلاق وتستعمل فيه لا في غيره فكانت صريحا قال - رحمه الله - (وتقع واحدة رجعية) لقوله تعالى {الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان} [البقرة: 229] فأثبت الرجعة بعد الطلاق الصريح، وقال تعالى {وبعولتهن أحق بردهن} [البقرة: 228] وإنما يكون هو أولى إذا كان النكاح باقيا فدل على بقاء النكاح، وتسميته بعلا أيضا يدل عليه ولا يقال الرد لا يكون إلا بعد خروجه عن ملكه؛ لأنا نقول لا يلزم من الرد الخروج عن ملكه كما يقال رد البائع المبيع إذا فسخ البيع بعدما باعه بشرط الخيار ولم يخرج به عن ملكه.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (4/ 54) دار الكتب العلمية:
 (قوله هي استدامة الملك القائم في العدة) أي الرجعة إبقاء النكاح على ما كان مادامت في العدة لقوله تعالى {فأمسكوهن بمعروف} [البقرة: 231] لأن الإمساك استدامة الملك القائم لا إعادة الزائل وقوله تعالى {وبعولتهن أحق بردهن} [البقرة: 228] يدل على عدم اشتراط رضاها، وعلى اشتراط العدة إذ لا يكون بعدها بعلا، والرد يصدق حقيقة بعد انعقاد سبب زوال الملك، وإن لم يكن زائلا بعد كما بعد الزوال.

 محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

8/شعبان المعظم 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب