021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہر کی اجازت سے یک طرفہ عدالتی خلع کا حکم
76247طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

میری شادی 2014 میں ہوئی۔میرا میکہ اسلام آباد میں ہے، جبکہ شوہر کا تعلق ساہیوال سے ہے۔  شادی کے بعد کچھ عرصہ تو میرے شوہر کے ساتھ تعلقات اچھے رہے،  لیکن میری اور ان کی ذہنی ہم آہنگی اور موافقت  بالکل نہیں تھی جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ حالات ناخوشگوار ہوتے گئے۔

ایک دفعہ ان سے لڑائی ہوئی تو میں نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ مجھے چھوڑ دیں تو انہوں نے دو دفعہ کہا کہ میں نے تمہیں چھوڑ دیا ، لیکن پھر ایک دو دن میں ہی انہوں نے رجوع کر لیا۔ میرے شوہر ملک سے باہر ملازمت کرتے ہیں۔ میں کچھ عرصہ ان کے ساتھ باہر ملک جا کر رہی،  لیکن آپس میں ہم آہنگی اور موافقت  نہ ہونے کی وجہ سے میرے لیے پردیس میں ان کے ساتھ رہنا ممکن نہیں تھا، اس لیے میں 2020 میں پاکستان واپس آگئی اوراسلام آباد اپنے میکے میں رہنے لگی۔

اتنا عرصہ ان کے ساتھ گزارنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ میری ان کے ساتھ خوشگوار زندگی گزارنا اور ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری بالکل ممکن نہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہم دونوں کے مزاجوں کا اختلاف اور عدمِ موافقت ہے،نیز میرے شوہر کسی حد تک نفسیاتی مریض بھی معلوم ہوتے ہیں، چنانچہ ان کےساتھ رہنا میرے لیے حد درجہ دشوار اور ذہنی اذیت کا باعث ہے۔

ان وجوہات کی بناء پر  پاکستان آنے کے بعد 2020 میں ہی میں نےان سے طلاق کا  مطالبہ کیا جسے انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ دس سال بھی بیٹھی رہو تو میں طلاق نہیں دوں گا۔ پھر کافی عرصہ میرا ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں رہا اور میں اس وقت سے تاحال اپنے میکے میں ہی رہ رہی ہوں۔

کچھ عرصہ سے میرا دوبارہ ان کے ساتھ فون پر رابطہ ہے اور میں ان سے بارہا طلاق کا مطالبہ کرچکی ہوں جسے وہ ماننے کے لیے ہر گز تیار نہیں۔ ایک بار  جب میں نے ان سےطلاق کا مطالبہ کیا تو انہوں نے کہا ہے کہ تمہارے لیے آسان راستہ موجود ہے کہ عدالت سے جا کر خلع لےلو اور میں اس کا خرچ بھی دے دوں گا، لیکن خود تمہیں طلاق نہیں دوں گا۔

مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کچھ عرصہ قبل میرے شوہر پاکستان آئے تھے اور انہوں نے دوسری شادی کر لی ہے اور اپنی دوسری بیوی کو ساتھ باہر ملک لے گئے ہیں۔

میرے درج بالا حالات کے پیشِ نظر آپ حضرات سے شریعتِ مطہرہ کی روشنی میں رہنمائی درکار ہے کہ جب میرے شوہر نے یہ کہا کہ تمہارے لیے آسان راستہ موجود ہے عدالت سے خلع لے لو اوراس کا خرچ بھی میں تمہیں دے دوں گا تو اب اگر شوہر عدالت میں حاضر نہ ہوں تو عدالت کے یک طرفہ خلع کا فیصلہ دینے سے خلع شرعا درست ہو جائے گا؟اور اگر محض اتنا کہنے سے عدالتی خلع درست نہیں ہوتا تواگر وہ واضح الفاظ میں مجھے عدالت سے خلع لینے کی اجازت دے دیں توکیا اس صورت میں عدالت کا یک طرفہ خلع کا فیصلہ شرعا درست ہوجائے گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں جب آپ کے شوہر نے کچھ عرصہ پہلے آپ کے مطالبۂ طلاق پر آپ کو دو مرتبہ یہ الفاظ "میں نے تمہیں چھوڑ دیا"  کہے تھے تو اس سے آپ پر دو طلاقِ رجعی واقع ہوگئی تھیں، اس کے بعد ان کا عدت کے اندر رجوع کرنا درست تھا۔ اب ان کے پاس ایک طلاق کا اختیار ہے، اگر وہ آپ کو مزید ایک طلاق یا خلع دیں گے تو تین طلاقیں پوری ہو کر آپ دونوں کے درمیان حرمتِ مغلظہ ثابت ہوجائے گی۔  

جہاں تک ان الفاظ "تمہارے لیے آسان راستہ موجود ہے عدالت سے جا کر خلع لےلو اور میں اس کا خرچ بھی دے دوں گا، لیکن خود تمہیں طلاق نہیں دوں گا۔" کا تعلق ہے تو ان الفاظ کی وجہ سے یک طرفہ عدالتی خلع درست نہیں ہوگا؛ (کما فی عبارة بدائع الصنائع الآتیة)، نیز یہ الفاظ شوہر کی رضامندی پر بھی دلالت نہیں کر رہے ہیں، بلکہ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمہیں چھوڑنے پر راضی نہیں ہے، اس لیے کہا کہ میں خود تمہیں طلاق نہیں دوں گا، اگر تم کسی اور طریقے سے آزادی حاصل کرسکتی ہو تو کرلو۔ اگر آپ کا شوہر آئندہ آپ کو دوسرے الفاظ میں عدالت سے خلع لینے کی اجازت دے تو اس کے معتبر ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ شوہر کے الفاظ کو دیکھ کر کیا جائے گا۔

تاہم آپ دونوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے سے درگذر کریں، اور حتی الامکان طلاق یا خلع کے بجائے اپنے مسائل خوش اسلوبی سے حل کر کے اپنا گھر آباد کریں۔  اور اگر کسی صورت نباہ ممکن نہ ہو تو اس صورت میں بھی عدالت جانے کے بجائے گھر اور خاندان کی سطح پر شوہر کو خلع پر راضی کیا جائے کہ وہ خلع دے۔  

حوالہ جات
بدائع الصنائع (3/ 145):
وأما بيان كيفية هذا النوع فنقول: له كيفيتان: إحداهما أنه طلاق بائن……..، والثانية أنه من جانب الزوج يمين وتعليق الطلاق بشرط وهو قبولها العوض, ومن جانبها معاوضة المال وهو تمليك المال بعوض، حتى لو ابتدأ الزوج الخلع فقال: خالعتك على ألف درهم لا يملك الزوج الرجوع عنه ولا فسخه ولا نهى المرأة عن القبول ولا يبطل بقيامه عن المجلس قبل قبولها ولا بشرط حضور المرأة بل يتوقف على ما وراء المجلس حتى لو كانت غائبة فبلغها فلها القبول لكن في مجلسها; لأنه في جانبها معاوضة لما نذكر……….. وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة ولا يستحق العوض بدون القبول بخلاف النوع الأول فإنه إذا قال خالعتك ولم يذكر العوضونوى الطلاق فإنه يقع الطلاق عليها سواء قبلت أو لم تقبل لأن ذلك طلاق بغير عوض فلا يفتقر إلى القبول……….  ثم الخلع ينعقد بلفظين يعبر بهما عن الماضي في اللغة، وهل ينعقد بلفظين يعبر بأحدهما عن المستقبل وهو الأمر والاستفهام؟ فجملة الكلام فيه أن العقد لا يخلو إما أن يكون بلفظة الخلع وإما أن يكون بلفظة البيع والشراء، وكل ذلك لا يخلو إما أن يكون بصيغة الأمر أو بصيغة الاستفهام.
 فإن كان بلفظة الخلع على صيغة الأمر يتم إذا كان البدل معلوما مذكورا بلا خلاف بأن قال لها "اخلعي نفسك مني بألف درهم" فتقول "خلعت"، وإن لم يكن البدل مذكورا من جهة الزوج بأن قال لها "اخلعي نفسك مني" فقالت "خلعت بألف درهم" لا يتم الخلع حتى يقول الزوج "خلعت".
والفرق أن الأمر بالخلع ببدل متقوم توكيل لها، والواحد يتولى الخلع من الجانبين وإن كان هذا النوع معاوضة، والواحد لا يتولى عقد المعاوضة من الجانبين كالبيع؛ لأن الامتناع للتنافي في الحقوق المتعلقة ولا تنافي ههنا؛ لأن الحقوق في باب الخلع ترجع إلى الوكيل، ولهذا جاز أن يكون الواحد وكيلا من الجانبين في باب النكاح. وفي المسألة الأولى لا يمكن جعل الأمر بالخلع توكيلا لجهالة البدل، فلم يصح التوكيل، فلو تم العقد بالواحد لصار الواحد مستزيدا ومستنقصا، وهذا لا يجوز.
 وإن كان بصيغة الاستفهام بأن قال الزوج لها "أخلعت نفسك مني بألف درهم؟" فقالت: خلعت اختلف المشايخ فيه، قال بعضهم: يتم العقد، وقال بعضهم: لا يتم ما لم يقبل الزوج، وبعضهم فصل فقال: إن نوى به التحقيق يتم وإن نوى به السوم لا يتم؛ لأن قوله "أخلعت نفسك مني؟" يحتمل السوم بل ظاهره السوم لأن معناه أطلب منك أن تخلعي نفسك مني فلا يصرف إلى التحقيق إلا بالنية فإذا نوى يصير بمعنى التوكيل والأمر
البحر الرائق (4/ 84):
وفي المجتبى: فوضت الخلع إلى زوجها أو العبد إلى المولى ففعل بغير حضرتهما جاز، والواحد يتولى الخلع من الجانبين .
وفي عتاق الأصل: الواحد يكون وكيلا من الجانبين في العتاق والخلع والصلح عن دم العمد إذا كان البدل مسمى، وإلا لا يكون في ظاهر الرواية، وعن محمد أنه يكون، اه.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

    1/شعبان/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب