021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حیض کی حالت میں  طلاق کا حکم
76466طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

محترم مفتی صاحب!

2019 میں اپنی بیوی کو دو طلاقیں دینے کے بعد ان کے اصرار پر دوبارہ رجوع کرلیا تھا اور اس کے بعد میں نے مؤرخہ بارہ مارچ 2022 بروز ہفتہ اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، طلاق دیتے وقت میری بیوی حیض کی حالت میں تھی، اس وقت میرے دو بچے ہیں اور ڈھائی سال کا بیٹا ہے اور ایک دس ماہ کی دودھ پیتی بیٹی ہے، میری اہلیہ اور سسرال والوں کا کہنا ہے: چونکہ حیض کی حالت میں دی جانے والی طلاق واقع نہیں ہوتی، اس لئے آپ کا طلاق مؤثر نہیں ہے، آپ اپنی بیوی کے ساتھ بدستور رہ سکتے ہیں۔

ازراہ کرم اس بابت میری رہنمائی فرمائیں آیا تین طلاقیں واقع ہوئی ہیں یا نہیں؟ اگر طلاق واقع ہوئی ہے تو کیا میں بچوں کے ساتھ ساتھ اپنی بیوی کا خرچ اٹھاؤں گا!؟جبکہ اس سے پہلے ہم ایک کرائے کے گھر میں رہتے تھے، اب میں اپنے والدین کے گھر پر ہوں اور وہ ڈاکٹرنی ہے وہاں ہاسٹل میں رہتی ہے اور مجھ سے خرچے اور الگ کرائے کے گھر، بچوں کی کفالت وغیرہ  کا مطالبہ کررہی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

احناف کے نزدیک حالت حیض میں دی جانے والی طلاق واقع ہوجاتی ہے، اگرچہ اس طرح طلاق دینا مکروہ تحریمی اور ناجائز ہے،اور ایسا شخص سنت کی خلاف ورزی کی وجہ سے گناہگار ہوگا، ایسے طلاق کو احناف کے ہاں طلاق بدعی کہا جاتا ہے، یعنی وہ طلاق جو سنت کے خلاف ہے، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت حیض میں طلاق دینے سے منع فرمایا ہے،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جب لاعلمی میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا تھا کہ وہ رجوع کرلیں اور پھر اگر چاہیں تو دوبارہ طہر  کی حالت میں طلاق دیں، رجوع کا حکم دینے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حالت حیض میں اگرچہ طلاق دینا جائز نہیں، لیکن اگر طلاق دے دی تو طلاق بہر حال واقع ہوجاتی ہے، اس لئے آپ کی بیوی کو اب مکمل تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اوروہ حرمت مغلظہ کے ساتھ آپ پر حرام ہوچکی ہے، اس لئے اب یہ عورت آپ کیلئے حلال نہیں ہےالا یہ کہ یہ عورت آپ کی عدت گزارنے کے بعد کسی اور مرد سے شادی کرے اور وہ مرد اسے ہمبستری کے بعد طلاق دیدے،اس طرح دوسرے مرد کی طلاق کے بعد جب عدت گزرجائے گی تو تب یہ عورت آپ کیلئے حلال ہوگی۔

 لہذا! اس معاملے میں شریعت کے حکم کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کی بیوی کو تیسری طلاق بھی واقع ہوچکی ہے اس لئے اپنی اہلیہ اور سسرال والوں کی باتوں کی طرف کان نہ دہریں۔

طلاق کے بعد عدت کے دوران اگر بیوی اپنے شوہر کے ساتھ رہ رہی ہو تو اس کے رہائش اور نان ونفقے کا بندوبست شوہر کے ذمے ہے لیکن اگر طلاق کے بعد بیوی بغیر کسی عذر شرعی کے شوہر کا گھر چھوڑ کر کہیں اور رہنے لگتی ہے تو اس صورت میں اس کے نان ونفقہ اور دیگر خرچوں کا شوہر ذمہ دار نہیں ہے۔ اس لئے آپ کی بیوی اگر اپنی مرضی سے ہاسٹل میں رہ رہی ہے تو اسے اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ آپ سے خرچہ اور الگ سے کرائے کے مکان کا مطالبہ کرے، البتہ وہ بچوں کے کفالت کامطالبہ کرسکتی ہے، کیونکہ بچے جب تک بالغ نہ ہوں اس وقت تک ان کی کفالت بہر صورت شوہر کے ذمے لازم ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 232)
(والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين)في طهر واحد (لا رجعة فيه، أو واحدة في طهر وطئت فيه، أو) واحدة في (حيض موطوءة) لو قال والبدعي ما خالفهما لكان أوجز وأفيد،(وتجب رجعتها) على الأصح (فيه) أي في الحيض رفعا للمعصية.
وفی حاشیتہ:
(قوله وتجب رجعتها) أي الموطوءة المطلقة في الحيض (قوله على الأصح) مقابله قول القدوري إنها مستحبة لأن المعصية وقعت فتعذر ارتفاعها، ووجه الأصح قوله - صلى الله عليه وسلم - لعمر في حديث ابن عمر في الصحيحين «مر ابنك فليراجعها» حين طلقها في حالة الحيض، فإنه يشتمل على وجوبين: صريح وهو الوجوب على عمر أن يأمر وضمني وهو ما يتعلق بابنه عند توجيه الصيغة إليه فإن عمر نائب فيه عن النبي - صلى الله عليه وسلم - فهو كالمبلغ، وتعذر ارتفاع المعصية لا يصلح صارفا للصيغة عن الوجوب لجواز إيجاب رفع أثرها وهو العدة وتطويلها إذ بقاء الشيء بقاء ما هو أثره من وجه فلا تترك الحقيقة.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 609)
(و) تجب (لمطلقة الرجعي والبائن، والفرقة بلا معصية كخيار عتق، وبلوغ وتفريق بعدم كفاءة النفقة والسكنى والكسوة) إن طالت المدة.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 609)
وفي المجتبى: نفقة العدة كنفقة النكاح، وفي الذخيرة: وتسقط بالنشوز وتعود بالعود، وأطلق فشمل الحامل وغيرها والبائن بثلاث أو أقل كما في الخانية،
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 612)
(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر.
وفی حاشیتہ:
(قوله بأنواعها) من الطعام والكسوة والسكنى، ولم أر من ذكر هنا أجرة الطبيب وثمن الأدوية، وإنما ذكروا عدم الوجوب للزوجة، نعم صرحوا بأن الأب إذا كان مريضا أو به زمانة يحتاج إلى الخدمة فعلى ابنه خادمه وكذلك الابن (قوله لطفله) هو الولد حين يسقط من بطن أمه إلى أن يحتلم، ويقال جارية، طفل، وطفلة، كذا في المغرب. وقيل أول ما يولد صبي ثم طفل ح عن النهر (قوله يعم الأنثى والجمع) أي يطلق على الأنثى كما علمته، وعلى الجمع كما في قوله تعالى {أو الطفل الذين لم يظهروا} [النور: 31] فهو مما يستوي فيه المفرد والجمع كالجنب والفلك والإمام - {واجعلنا للمتقين إماما} [الفرقان: 74]- ولا ينافيه جمعه على أطفال أيضا كما جمع إمام على أئمة أيضا فافهم.
(قوله الفقير) أي إن لم يبلغ حد الكسب.

 محمدنصیر

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

 22،شعبان المعظم،1443ھ            

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نصیر ولد عبد الرؤوف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب