021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دومیتوں کے ورثہ کے درمیان میراث کی تقسیم
76437میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

میں مسماۃ نجم النساء صدیقی زوجہ ضیاء الرب حلفیہ بیان دیتی ہوں کہ:

میرے شوہر ضیاء الرب کا انتقال 15 فروری 2022 کو ہوا، نادرا کا وفات سرٹیفیکیٹ ساتھ میں منسلک ہے اور ہماری کوئی اولاد نہیں ہے۔

میرے شوہر کی پہلی بیوی کا انتقال 19اگست 2020 کو ہوا تھا، اس سے بھی کوئی اولاد نہیں ہے۔

میرے شوہر کے بہن بھائیوں کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

1۔مرزا قمر بیگ(بھائی)

یہ حیات ہیں اور ان کے چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں، بیٹے اور بیٹیاں سب شادی شدہ ہیں اور اپنے گھروں میں رہتے ہیں، قمر بیگ صاحب کی اہلیہ کا انتقال ہوچکا ہے۔

2۔مرزا مشتاق بیگ(بھائی)

ان کا انتقال ہوچکا ہے، اور ان کی بیگم زندہ ہیں، ان کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، ایک بیٹا اور تین بیٹیوں کی شادی ہوچکی ہے اور ایک بیٹا جس کی عمر 22 سال ہے وہ یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہے۔

3۔ شاہ جہاں بیگم(بہن)

یہ اور ان کے شوہر انتقال کرگئے ہیں،ان کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہیں، یہ سب شادی شدہ ہیں اور صاحب اولاد بھی ہیں۔

4-مشرف جہاں بیگم (چھوٹی بہن)

ان کا انتقال میرے شوہر ضیاء الرب کے انتقال کے دو دن بعد ہوا ہے اور ان کے شوہر کا بھی ایک دن پہلے انتقال ہوا، ان کی تین بیٹیاں نصرت جبین،ماریہ وہاب اور نوریہ خان اور دو بیٹےسید رضوان احمد،دلشاد احمد ہیں، یہ سب شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں۔

میرے شوہر کے اثاثہ جات کی تفصیل درج ذیل میں ہیں:

1: گھر جس میں میری رہائش ہے، یہ مکان احسن آباد سیکٹر 1 فیز 2 میں واقع ہے، جس کا کل رقبہ 200 گز پر مشتمل ہے اور اس کی قیمت ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

2: بینک اکاؤنٹ میں 3 لاکھ روپے موجود ہیں۔

3:میرے شوہر محلہ کسٹمز کے ریٹائرڈ پینشنر تھے، اور اب فیملی پینشن گورنمنٹ کے قوانین کے مطابق اس کی حقدار صرف زوجہ ہوتی ہے۔

گزارش ہے ان تمام تر تفصیلات اور خاندان کو مد نظر رکھ ایک شرعی فتوی جاری کردیں، جس کے مطابق ان اثاثوں کی تقسیم ان حقداروں میں کس طرح ہوگی جبکہ میری اپنی کوئی جائیداد اور رہائش گاہ نہیں ہے۔

وضاحت:

سائل سے مزید تنقیح کے بعد درج ذیل باتیں معلوم ہوئی ہیں:

1۔ مرحوم کے بھائی مرزا مشتاق بیگ کا انتقال 21 جون 2019 کو ہوا ہے۔

2۔ مرحوم کی بہن شاہ جہاں کے بیگم کا انتقال 24 فروری 2015 کو ہوا ہے۔

3۔ 17 فروری 2022 کو مشرف جہاں انتقال کرگئی جبکہ ان کے شوہر کا انتقال ان سے پہلے 16 فروری کو ہوا ہے۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میت کے میراث میں سے صرف  ان ورثہ کو حصہ ملتا ہے جو میت  کے فوت ہوتے وقت زندہ ہوں، اور جو  ورثہ میت کے وفات سے پہلے فوت ہوچکے ہوں ان کو اور ان کی اولاد کو میت کی میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا،اس لئے صورت مسؤلہ میں مرحوم ضیاء الرب کی پہلی بیوی آفتاب صمد،ان کے بھائی مرزا مشتاق بیگ اور ان کی بہن شاہ جہاں بیگم ان سب کو اور ان کی اولاد کو ضیاء الرب کی میراث میں سے کچھ نہیں ملے گا، البتہ مرحوم کی اہلیہ محترمہ نجم النساء صدیقی، ان کے بھائی مرزا قمر بیگ، اور ان کی بہن مشرف جہاں بیگم کو ترکہ میں سے حصہ ملے گا، اسی طرح مرحومہ مشرف جہاں بیگم کی میراث میں سے صرف ان کے بیٹے اور بیٹیوں کو حصہ ملے گا، ان کے شوہر کو حصہ نہیں ملے گا کیونکہ وہ مرحومہ کے وفات سے ایک دن قبل فوت ہوگئے تھے اور مرحومہ کے فوت ہوتے وقت زندہ نہیں تھے ۔

مرحوم ضیاء الرب کے انتقال کے وقت ان کی دوسری بیوی،ایک بہن اور ایک بھائی موجود تھے، پھر دو دن بعد ان کی بہن کا انتقال ہوا، لہذا دونوں میتوں کے ورثاء میں نقدی اور مکان حسب ذیل تقسیم ہوں گے:

مرحوم ضیاء الرب کے جائیدادکو 28 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا جس میں سے 7 حصے مرحوم ضیاء الرب کی بیوی نجم النساء صدیقی کو،14 حصے ان کے بھائی مرزا قمر  بیگ کو، دو دو حصے مرحومہ مشرف جہاں بیگم کے دونوں بیٹوں کو اور ایک ایک حصہ ان کی تینوں بیٹیوں کو دیا جائے گا۔

فیصد کے اعتبار سے تقسیم یوں ہوگی مرحوم کے جائیداد میں سےمرحوم ضیاء الرب کی بیوی نجم النساء صدیقی کو 25% فیصد،ان کے بھائی مرزا قمر بیگ کو٪50 فیصد، اور مرحومہ مشرف جہاں کے ہر بیٹے کو 7.14فیصد، اور ان کی ہر بیٹی کو 3.58فیصد دیا جائے گا۔

اسی طرح بینک اکاؤنٹ میں نقدی پیسے تین لاکھ کو بھی 28 حصوں میں تقسیم کرکے مذکورہ ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے گا، جس کی صورت کچھ یوں ہوگی کہ مرحوم ضیاء الرب کی بیوی نجم النساء صدیقی کو 75000،ان کے بھائی مرزا قمر بیگ کو 150000، اور مرحومہ مشرف جہاں بیگم کے ہر بیٹے کو.5721428 اور ان کی ہر بیٹی کو 10714.28 دیئے جائیں گے۔

 

باقی آپ کو حکومت کی طرف سے جوپنشن مل رہی ہے چونکہ اس کا شمار میت کے ترکہ میں نہیں ہے بلکہ یہ سرکار کی طرف سے محض تبرع واحسان ہے؛ لہذا قانونا یہ پنشن جس کے نام آتی ہو وہی اس کا مالک ہے، دوسرے لوگ شرعا وقانونا اس کے حقدار نہیں ہیں، اس لئے شوہر کے وفات کے بعد  پنشن والی رقم کی آپ تن تنہا مالک ہیں، دیگر ورثاء کا اس میں حصہ نہیں ہے۔

حوالہ جات

محمدنصیر

  دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

  22،شعبان المعظم،1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نصیر ولد عبد الرؤوف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب