021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق بائن دینے کے بعد طلاق صریح کا حکم
76435طلاق کے احکامطلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان

سوال

میری شادی کے بعد میرے اور سسرال والوں کے درمیان کافی عرصے تک ناچاقیاں چل رہی تھی، جس کی وجہ سے اکثر میں اپنے میکے جاکر بیٹھ جاتی تھی، میرے گھر والوں نے شوہر سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ کچن اور گھر علیحدہ کردو، ایک دفعہ میں اپنے شوہر کے گھر تھی، میری والدہ آئی اور مجھے گھر لے آئی اور میرے مسائل کو سلجھانے کی خاطر میرے شوہر کو گھر بلایا، باتوں باتوں میں والدہ اور شوہر کے درمیان کافی بحث ومباحثہ ہوا، تو اس دوران میرے شوہر نے کہا: آپ کی بیٹی وہاں ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتی، وہ آزاد زندگی چاہتی ہے اور مجھ سے اپنے آپ کو چھڑانا چاہتی ہے، اس لئے اس کے چاہت کے مطابق میں آج سے انہیں آزاد کرتا ہوں اور چھوڑ دیتا ہوں؛ کیونکہ یہ  مسائل اب آئے روز پیش ہوتے رہیں گے۔

اس واقعے  کے بعد میرے شوہر نے اگست 2021 میں کہیں سے فتوی لیا تھا کہ ان الفاظ سے طلاق بائن واقع ہوگئی ہے، اب تجدید نکاح کی گنجائش ہے اور سابقہ نکاح ختم ہوگیا ہے۔

اس واقعے کے بعدجب میں اپنے میکے ہی میں تھی، میرے اور میرے شوہر کے درمیان کافی کشیدگی پیدا ہوگئی، میرے شوہر نے تحریری طور پر 23 دسمبر کو 3 طلاق میرے پاس بھیج دیں۔

اب معلوم یہ کرنا ہے کہ اگر پہلے طلاق بائن واقع ہوگئی تھی تو اس کے تقریبا تین یا چار ماہ بعد تین طلاقیں دے دی ہیں ان کی کوئی حیثیت ہے یا نہیں، اگر نہیں تو اب تجدید نکاح کی گنجائش ہے، اگر شریعت کی روشنی میں گنجائش نظر آتی ہے تو برائے مہربانی مجھے اس پر فتوی عنایت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

طلاق بائن کے بعد  طلاق صریح اس وقت مؤثر ہوتی ہے جب طلاق بائن کے عدت کے اندر دی جائے لیکن اگر طلاق بائن کی عدت گزر جائے پھر اس کے بعد اگر شوہر طلاق صریح دے دے تو اس صورت میں طلاق صریح واقع نہ ہوگی اور اس کے دیگر احکام مرتب نہیں ہوں گے، پھر اگر شوہر ایک یا دو طلاق بائن دینے کی صورت میں نئے مہر اور نئے نکاح کے ساتھ اپنی طلاق یافتہ بیوی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔

صورت مسؤلہ میں چونکہ سائلہ کے شوہر نے پہلے یہاں سے طلاق بائن کے بعد طلاق صریح کے متعلق ایک فتوی حاصل کرلیا ہے، جس کی رو سے عدت کے اندر طلاق صریح دینے کی وجہ سے اس کی بیوی کو تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، یہ فتوی شوہر کےاس بیان کےمطابق تھا کہ میں نے تین طلاقیں پہلی طلاق کے پندرہ بیس دن بعد دی ہے،اب بیوی کا بیان یہ ہےکہ شوہر نے طلاق بائن دیکر تین چار ماہ کے بعد تین طلاقیں دی ہیں  حالانکہ ان کے شوہر کی طرف سے بھیجے گئے سوالنامے میں طلاق بائن کے 15،20 دن بعد تین طلاقیں دی گئی ہیں۔

ایسے اختلاف میں چونکہ شوہر کی بات کا اعتبار ہے، اس لئے سابقہ فتوی برقرار ہے۔.

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 306)
(قوله الصريح يلحق الصريح) كما لو قال لها: أنت طالق ثم قال أنت طالق أو طلقها على مال وقع الثاني بحر، فلا فرق في الصريح الثاني بين كون الواقع به رجعيا أو بائنا (قوله ويلحق البائن) كما لو قال لها أنت بائن أو خلعها على مال ثم قال أنت طالق أو هذه طالق بحر عن البزازية، ثم قال: وإذا لحق الصريح البائن كان بائنا لأن البينونة السابقة عليه تمنع الرجعة كما في الخلاصة. وقال أيضا: قيدنا الصريح اللاحق للبائن بكونه خاطبها به وأشار إليها للاحتراز عما إذا قال كل امرأة له طالق فإنه لا يقع على المختلعة إلخ وسيذكره الشارح في قوله ويستثنى ما في البزازية إلخ ويأتي الكلام فيه (قوله بشرط العدة) هذا الشرط لا بد منه في جميع صور اللحاق، فالأولى تأخيره عنها

      محمدنصیر

    دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

   22،شعبان المعظم،1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نصیر ولد عبد الرؤوف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب