76549 | وصیت کا بیان | متفرّق مسائل |
سوال
سوال: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !بندہ کے پانچ بچے ہیں۔ان میں سے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ۔بندہ نے رہنے کے لئے سب کو ایک ایک فلیٹ خرید کردیا ،جو ان کی ملکیت بن گیا ۔
اُن میں سے دو لڑکوں اور ایک لڑکی نے اپنے فلیٹ بیچ کر ایک جگہ گھر کے لئے خریدی ۔یہ جگہ والد نے عارضی طور پر اپنے نام کرائی ہے۔
اس گھر کی تعمیر میں مندجہ ذیل لوگوں کی رقم شامل ہے ۔
رقم |
نام |
نمبر شمار |
32،5000 |
بڑا بیٹا عبد الواحد بھٹہ |
1 |
32،5000 |
چھوٹا بیٹا محمد عمیر بھٹہ |
2 |
800،000 |
چھوٹی بیٹی فاطمہ محمد اسلم بھٹہ |
3 |
15،00،000 |
والد محمد اسلم بھٹہ |
4 |
اس مکان میں یہ لوگ رہائش پذیر ہیں ۔
اگر یہ مکان کل یا کبھی فروخت کیا جائے گا تو مندجہ بالا سرمایہ کاری کے اعتبار سے قیمت فروخت ان میں تقسیم کی جائےگی۔
چونکہ یہ معاملہ والد کی وفات کے بعد ہوسکتا ہے جب بچے کسی وجہ سے الگ ہونا چاہیں گے تو کیا والد اپنے حصے سے مندرجہ ذیل وصیت کرسکتا ہے؟
والد کے حصے سے جو رقم ملے یا وفات کے بعد والد کے بنک اکاونٹ یا بیگ سے جو رقم ملے اس میں سے 33 فیصد رقم ایصال ثواب کے لئے جامعہ اور دیگر افراد کو دی جائےگی اور بقیہ رقم شریعت کے وراثت کے اصولو ں پر ہی بچوں میں تقسیم کردی جائے ۔
والد کا سامان بھی آپس میں بچے تقسیم کرلیں ۔
درخواست ہے کہ کیا مندرجہ بالا وراثتی وصیت درست ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ بالاوصیت نامہ شرعا درست ہے،البتہ چندچیزوں کی وضاحت ہوجائےتوبہترہے:
۱۔وصیت میں مذکورہےکہ" 33فیصد رقم ایصال ثواب کےلیےجامعہ اوردیگرافراد کودی جائےگی"اس میں جامعہ کی بھی وضاحت کردی جائےاوردیگرافرادکی بھی تاکہ بعدمیں یہ چیزیں مبہم نہ رہیں ۔
۲۔والدکاسامان بچےکس اعتبارسےتقسیم کریں،برابربرابر؟وراثت کےمطابق؟یاپھرباہمی رضامندی سے؟جوبھی طریقہ کارمناسب ہووہ وصیت میں لکھ دیاجائے۔
ان وضاحتوں کےساتھ مذکورہ بالاوصیت شرعادرست ہوگی۔
حوالہ جات
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی
16/رمضان 1443 ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب |