021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کسی کےلیےپلاٹ خریدکربیعانہ کی رقم  دیدی،لیکن یہ نہیں بتایاکہ یہ قبضہ کی جگہ ہےتوکیاحکم ؟
76555خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ زید نے عمرو کو ایک پلاٹ دکھایا کہ یہ کسی آدمی کا ہے وہ بیچنا چاہ رہا ہے آپ اگر لینا چاہیں تو آپ کے لیے خرید لیتے ہیں ،عمرو نے کہا کہ اس میں کوئی مسئلہ تو نہیں ؟ زید نے جواب دیا نہیں یہ بالکل ٹھیک ہے، اس میں کوئی مسئلہ ہوا تو میں ذمہ دار ہوں،عمرو نے کہا ٹھیک ہے آپ ان سے بات کریں،اگلے دن زید نے بتایا کہ ان سے بات ہوگئ ہے انہیں میں نے پچاس ہزار ٹوکن بھی دیا ہے، عمرو اس دن زید کے پاس پہنچ گیا اور کہا اس کی فائل وغیره کہاں ہے ؟ زید نے بتایا کہ یہ تواللہ بخش گوٹھ کی قبضے والی جگہ ہے اس کا اسٹام پیپر ہوتا ہے فائل نہیں ؟ اس پر عمرو نے کہا کہ قبضے کی جگہ کی تو شرعاً خرید و فروخت درست نہیں، اس لیے میں نہیں لیتا اور اس وقت ایک مفتی صاحب سے زید کے سامنے پوچھا کہ یہ خرید و فروخت جائز ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں قبضے والی جگہ پر کیسے درست ہے ؟ اس پر عمرو نے وہ جگہ لینے سے انکار کیا ؟ زید نے کہا چلو ایسا کرتے ہیں کہ یہ پلاٹ میں رکھ لیتا ہوں لیکن آپ مجھے تین لاکھ ایک ماہ کے لیے ادھار دیں۔ عمرو نے اس پر بھی رضامندی کا اظہار نہ کیا ، اس معاملے کو ایک مہینہ گزر چکا ہےاب زید کا کہنا ہے کہ میں نے پچاس ہزار بیعانہ دیا تھا وہ عمرو مجھے ادا کرے جبکہ عمرو کا کہنا ہے کہ مجھے کہا گیا یہ جگہ کلیر ہے حالانکہ وہ قبضے والی جگہ  ہے اور میرے اوپر بیعانہ کی رقم شرعاًلازم نہیں آپ شریعت کی رو سے اس مسئلے کا جواب عنایت فرمائیں ؟فقط واللہ اعلم

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قبضہ کی جگہ کی خریدوفروخت شرعاباطل ہے،جب عمرونےشروع میں یہ واضح طورپر پوچھاتھاکہ اس میں کوئی مسئلہ تونہیں؟توزید پرلازم تھاکہ شروع سےہی یہ واضح بتادیتاکہ گوٹھ کی فائل ہے،موجودہ صورت میں اس وقت عمر و کوچونکہ واضح طورپرنہیں بتایاگیا(جبکہ زیدکوخودقبضہ کی جگہ کاعلم بھی تھا)،اس لیے خریدوفروخت  کی وکالت کا مذکوره معاملہ درست نہیں، موجودہ صورت میں عمرو نہ تو اس پلاٹ کے لینے کا پابند ہے اور نہ ہی اس کے ذمہ بیعانہ کی رقم لازم ہے، فروخت کننده کو زید نےاپنی طرف سے بیعانہ کی رقم دی ہے ،یہ عمروکی طرف سےشمار نہ ہوگی ،لہذا بعدمیں عمرو سےمطالبہ درست نہیں ،ایسی صورت میں فروخت کنندہ کےلیے بیعانہ کی رقم ضبط کرنابھی جائز نہیں، اسے واپس کرنا لازم ہوگا ۔

واضح رہےکہ بیعانہ کی رقم خریدی ہوئی چیز کی قیمت کا ہی حصہ ہوتی ہے، اس کا لینا دیناشرعا جائز ہے، البتہ  اگرکسی وجہ سے سودا مکمل نہ ہوسکے تو  شرعایہ رقم واپس کرنا ضروری ہوتاہے، اس کا ضبط کرلینا  اور واپس نہ کرنا جائز نہیں ہے، اگرچہ فریقِ ثانی کی طرف سے اس  کی واپسی کامطالبہ نہ ہو۔

حوالہ جات
"صحيح مسلم للنيسابوري"5 /  58:حدثنا أبو بكر بن أبى شيبة حدثنا يحيى بن زكرياء بن أبى زائدة عن هشام عن أبيه عن سعيد بن زيد قال سمعت النبى -صلى الله عليه وسلم- يقول « من أخذ شبرا من الأرض ظلما فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين »۔
"شعب الایمان للبیھقیی 4"/387 :عن ابی حرة الرقاشی عن عمہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الالاتظلموا،الالایحل مال امرئ الابطیب نفس منہ ۔
"الھدایة" ج 3/370 :الغصب فی الشریعة اٴخذمال متقوم محترم بغیر اذن المالک علی وجہ یزیل یدہ ۔۔وعلی الغاصب ردالعین المغصوبة ۔
"سنن الترمذي" رقم: 1233:عن حکیم بن حزام رضي اللّٰہ عنہ قال: نہاني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن أبیع ما لیس عندي۔
"بدائع الصنائع، کتاب البیوع 4؍339 :
ومنہا: أن یکون مملوکًا؛ لأن البیع تملیک، فلا ینعقد فیما لیس بمملوک۔
ومنہا: وھو شرط انعقاد البیع للبائع أن یکون مملوکًا للبائع عند البیع؛ فإن لم یکن لا ینعقد۔
"مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح" 9 /  333:وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أي ابن عمر وعلى ما في الجامع الصغير للسيوطي قال نهى رسول الله عن بيع العربان بضم فسكون فموحدة اسم لذلك الشيء المدفوع وكان بيع العرب قال بعض الشراح فيه ست لغات عربان وأربان وعربون وأربون بضم الأول وسكون الثاني فيهن وفتح الأول في الأخيرين قال الطيبي رحمه الله أي عن البيع الذي يكون فيه العربان في النهاية هو أن يشتري السلعة ويدفع إلى صاحبها شيئا على أنه أمضى البيع حسب وإن لم يمض البيع كان لصاحب السلعة ولم يرتجعه المشتري وهو بيع باطل عند الفقهاء لما فيه من الشرط والغرر وأجازه أحمد وروى عن ابن عمر إجازته وحديث النهي منقطع رواه مالك وأبو داود وابن ماجة وكذا رواه أحمد۔                       

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

  15/رمضان  1443 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب