021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قتل کے بدلے نکاح کا حکم(رسم سورہ)
76038نکاح کا بیانولی اور کفاء ت ) برابری (کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں :کہ بعض اقوام و قبائل میں یہ رسم چلی آر ہی ہیں کہ قومی یا قبائلی اختلافات جیسے قتل یا جھگڑے وغیرہ میں فریقین میں صلح کرانے کے لیے مدعی کو راضی کرنے کےبدلے فریق مخالف کسی عورت کو اس کے نکاح یا اس کے اولاد یا بھائیوں کے نکاح میں دیتے ہیں اور دونوں فریق اس پر متفق ہوتے ہیں۔ شرعی لحاظ سے یہ کام جائز ہےیا نہیں؟(نوٹ: اس صورت کے علاوہ مقابل شخص (مدعی) ان کے ساتھ کسی اور صورت میں صلح کرنے پر راضی نہیں ہوگا)،نیز بعض لوگوں نے اس صورت کی اجازت اس حیلہ کے ساتھ دی ہے کہ لڑکی کی رضامندی بھی ہو اور مہر بھی مقرر ہو۔ کیا اس صورت میں نکاح ٹھیک ہے اور منعقد ہوتا ہے یا نہیں؟اسی طرح بعض لوگ نابالغ لڑکی کو صلح کے بدلے میں دیتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ بالغ ہونے کے بعد لڑکی سے اجازت لیتے ہیں اور اس کے لیئے مہر بھی متعین کرتے ہیں۔ کیا اس صورت میں یہ نکاح ٹھیک ہے اور منعقد ہوتا ہے یا نہیں؟(نوٹ: کیوں کہ حضرت والا علامہ مفتی رشیداحمد صاحب -قدس سرہ- احسن الفتاوی جلدنمبر 5 رسالہ:کشف الغبار عن مسئلۃ سوء الاختیار" میں فرماتے ہیں: کے نابالغ لڑکی کانکاح اس صورت میں منعقد نہیں ہوتا اور اصل سے باطل ہے۔)کیا کوئی شرعی حل ہے کہ عورت یا لڑکی صلح کے دوران یا پہلے یا صلح کے بعد دی جائے تا کہ طرفین صلح تک پہنچ جائے اور خونریزی کا سد باب کیا جائے؟اسی طرح آج بھی بعض قبائل میں یہ صورت(نابالغ لڑکی کو صلح کے بدلے میں دینا)موجود ہے اور وہ نابالغ لڑکیاں جو صلح کے بدلے میں دی گئی ہیں ان کی شادیوں پرکئی سال گزر چکے ہیں اور آج کل صاحب اولاد ہیں۔ حضرت والا کے فتوی(نکاح کامنعقد نہ ہونا اس صورت)کے بنا پر اس کی کیا صورت ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہ محض ایک قبائلی رسم ورواج ہے،اوراس بارے میں حکم شرعی میں درج ذیل تفصیل ہے:

۱۔عموما چونکہ اس میں سوء خیار کی بناء پرصالحہ کا غیر کفویعنی فاسق کے ساتھ نکاح ہوتا ہے،لہذا ایسا نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا۔

۲۔اوراگروالدنے نابالغ بچی کانکاح بدوں شرط کفوکیا ہواور بعد میں معلوم ہوا کہ شوہر کفو نہیں تو اس بارے میں راجح یہ ہے کہ نکاح صحیح ہے اور لڑکی کو خیار بلوغ حاصل نہ ہوگا۔

۳۔اور اگروالدنے نابالغ بچی کا نکاح مہر مثل کے ساتھ کفومیں کیاہو،البتہ سوء خیار کی وجہ سے اس میں باپ کی طمع اور ذاتی غرض کی وجہ سے بچی کے حقوق زوجیت کی مصلحت ورعایت کا نہ پایاجانا یقینی ہو ،مثلا عمرمیں بہت زیادہ  فرق ہو یا شوہر دائم المرض ہو یا معتوہ ہو یا اپاہج ہو تو اس بارے میں  نکاح تو باطل نہ ہوگا ،لیکن لڑکی کو سوء خیار کی وجہ سے خیار بلوغ دیا جائے گا،لہذا وہ خیار بلوغ کی شرائط معہودہ کے ساتھ عدالت میں  مقدمہ پیش کر ے اور حاکم اہل رائے سے حالات کی تحقیق کرکے مناسب سمجھے تو نکاح فسخ کردے(ماخوذ ازاحسن الفتاوی:ج۵،ص۱۱۸ تا ۱۲۴)

۴۔اوراگر نکاح کفو میں ہو اور کسی قسم کا سوء خیار نہ پایا جائے یعنی نہ توصالحہ بنت صالح کا غیر صالح سے نکاح ہواور نہ ہی نابالغہ کا نکاح مہر مثل سے کم میں ہو اور نہ ہی اس میں اس کی حقوق زوجیت کی رعایت ومصلحت کسی بھی درجہ وصورت میں مخالفت پائی جائے تو نکاح بلاخیار بلوغ صحیح ہوگا۔

جن صورتوں میں نکاح منعقد ہی نہیں ہوا اس میں تجدیدنکاح ضروری ہے،ورنہ فوری متارکت لازمی ہےاور عدت بھی لازم ہوگی۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۶ربیع الاول۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب