021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدین زندگی میں یہ کہتےرہےکہ بیٹایہ مکان تیراہی ہوگاتواس مکان میں وراثت کاکیاحکم ہوگا؟
76834میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !کیافرماتےہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کےبارےمیں ہم چاربھائی بہن یعنی تین بہن ایک بھائی ہیں،ہماری والدہ حیات ہیں،والدمحترم کا 2021 کوانتقال ہوگیاہے،والدمحترم کےنام کاایک مکان چارپورشن پرمشتمل یعنی اوپر نیچے دوکمروں کاچارپورشن ترکہ ہے،یادرہےاس مکان کی بنیاد سےتعمیر 2005 کوہوئی،پھر 2008 اور2009 میں مکمل ہوا،تقریبا 12 لاکھ روپیہ خرچہ ہوا،جس میں سےوالد صاحب نےتقریبا دولاکھ روپیہ ملائے،بقیہ تعمیراتی رقم دس لاکھ بیٹے نے ازراہ ہمدردی ملائے،والدین ہمیشہ کہتےرہےکہ بیٹا یہ مکان تیراہی ہوگا،بس اپنی بہنوں کاخیال رکھنا ۔

جناب عالی میری بہنوں کی جانب سے آج تک کوئی مطالبہ بھی نہیں کیاگیا۔

جناب مفتی صاحب!کیایہ مکان بطورمیراث تقسیم ہوگا؟اگرہوگاتواس کاطریقہ اوروارثین کوکتناحصہ ملےگا؟یادرہےکہ  میری والدہ بھی حیات ہے،اس مکان میں میری والدہ کےساتھ رہائش ہےاوردوپورشن میں مدرسہ  اوراسکول سسٹم چل رہاہے۔اگروراثت میں تقسیم کرناہوتوکیایہ فوری تقسیم ہوگا؟

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرتعمیرمیں بقیہ 10 لاکھ روپےدیتےوقت بیٹےکی طرف سے کوئی وضاحت نہیں کی گئی تھی اوربیٹے نےمذکورہ رقم واقعتا  ازراہ ہمدردی لگائی تھی   اورزندگی میں مکان بھی والدصاحب کے نام تھا ،بیٹےکی طرف سے والدصاحب کی زندگی میں مکان یامکان میں لگائی گئی رقم کامطالبہ بھی نہیں کیا گیاتویہ مکان مکمل والدکی ملکیت سمجھا جائےگا ،اوروفات کےبعد میراث میں شمارہوگا اور تمام ورثہ میں میراث کےمطابق حصہ ہوگا۔

میراث کی تقسیم کاطریقہ کاریہ ہوگاکہ مکان کی مارکیٹ ویلیو لگوائی جائےجوبھی قیمت ہو،اس کاآٹھواں حصہ آپ کی والدہ کاہوگا،باقی میراث آپ بھائی اوربہنوں میں اس طرح تقسیم ہوگی کہ آپ کودوحصےملیں گےاورہربہن کوایک ایک حصہ ملےگا،اگر تمام ورثہ کی  باہمی رضامندی سے آپ مکان میں  رہائش باقی رکھیں اوربہنوں کاجتناحصہ بنتاہےوہ بہنوں کودیدیں تویہ مکان مکمل طورپر آپ کاہوجائےگا۔

والدین کا یہ کہناکہ" یہ مکان تیراہی ہوگا"مذکورہ لفظ سےشرعاہبہ منعقدنہیں  ہوا،لہذاموجودہ صورت میں یہ مکان بیٹے کاذاتی نہیں ہوگا،بلکہ والدکی میراث ہونےکی وجہ سےبیٹے اوردیگرورثہ میں مذکورہ بالا تفصیل کےمطابق  تقسیم ہوگا۔ہاں اگروالدین بیٹے کوزندگی میں باقاعدہ ہبہ بھی کردیتےاوراس کےبعد مذکورہ جگہ بیٹے کےقبضے میں بھی دیدیتےتوپھرمذکورہ جگہ خاص بیٹے کی ملکیت ہوجاتی،اوروالدکی میراث نہ ہونےکی وجہ سےدیگرورثہ کومطالبہ کابھی حق نہ ہوتا۔

رہی بات کہ بہنوں کی طرف سےکوئی مطالبہ نہیں کیاگیا،تویادرہےکہ شرعاوراثت میں بہنوں کاحق ثابت ہوتوبھائیوں پرلازم ہےکہ وہ بہنوں کو میراث کاحصہ حوالہ کریں(چاہےبہنوں کی طرف سےمطالبہ ہویانہ ہو )اگربہنیں انکاربھی کررہی ہیں توبھی ان کاحصہ ان کے حوالہ کردیاجائے،ایک دفعہ وصول کرنےکےبعد اگربہنیں خوداپنی مرضی سے بھائیوں کودیناچاہیں اوران کےحوالےبھی کردیں تویہ بہنوں کی طرف سےبھائیوں کےلیےہبہ شمارہوگا،اورشرعامعتبربھی ہوگا،لیکن شرعااس ہبہ کےمعتبرہونے کےلیےضروری ہوگاکہ بہنیں اپنی مرضی سےاس طرح کامعاملہ کریں،بھائی یاخاندان کی طرف سےکسی قسم کادباؤوغیرہ  نہ ہو،ورنہ شرعابھائی کےلیےجائزنہیں ہوگاکہ وہ بہنوں سےہبہ کی مدمیں کچھ وصول کرے،شرعایہ بہنوں کومیراث کے حصے سےمحروم کرناہوگاجوکہ بہت بڑاگناہ ہےقرآن وحدیث میں اس پر سخت  وعیدیں آئی ہیں ۔

اسی طرح اگربہنوں نے اپنےمیراث کےحصےکےعوض کچھ رقم یاکوئی جگہ لےلی ہو(اگرچہ معمولی ہی  ہو)توبھی یہ جگہ شرعا بھائی کی ذاتی  شمار ہوگی ، اس میں  بھی ضروری ہوگاکہ بہنیں اپنی مرضی سےاس طرح کامعاملہ کریں بھائی یاخاندان کی طرف سےکسی قسم کاکوئی دباؤ نہ ہو۔

مذکورہ طریقہ کےذریعہ اگربہنوں کی طرف سےہبہ کردیاگیایامیراث کےحصےکےعوض کچھ لےلیاگیاتودوبارہ بہنوں کواپنے میراث کےحصےکےمطالبہ کاحق نہ ہوگا۔

بہترصورت تویہی ہوگی کہ جتناجلدہوسکےوراثت کوتقسیم کردیاجائے،لیکن اگرکوئی مجبوری ہو،مثلافی الوقت کوئی اوررہائش نہیں،یادیگرورثہ کو رقم دینےکےلیے فی الوقت بندوبست نہ ہورہاہوتووراثت کی تقسیم میں تاخیرکی جاسکتی ہے،لیکن اتنی تاخیرنہ کی جائےکہ اس کی وجہ سے ورثہ میں آپس میں لڑائی جھگڑےہوتےرہیں۔

حوالہ جات
"سورۃ النساء" آیت 12:
وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا۔
" شرح المجلۃ" 1/473 :یملک الموھوب لہ الموھوب بالقبض ،فالقبض شرط لثبوت الملک ۔
"شرح المجلۃ"1 /462:وتتم(الھبۃ)بالقبض الکامل لأنہامن التبرعات والتبرع لایتم الابالقبض الکامل ۔
" سورۃ النساء "  :تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (13) وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ (14)۔
" تفسير ابن كثير " 2 / 232:أي: هذه الفرائض والمقادير التي جعلها الله للورثة بحسب قربهم من الميت واحتياجهم إليه وفقدهم له عند عدمه، هي حدود الله فلا تعتدوها ولا تجاوزوها؛ ولهذا قال: { ومن يطع الله ورسوله } أي: فيها، فلم يزد بعض الورثة ولم  ينقص بعضا بحيلة ووسيلة، بل تركهم على حكم الله وفريضته وقسمته { يدخله جنات تجري من تحتها الأنهار خالدين فيها وذلك الفوز العظيم ومن يعص الله ورسوله ويتعد حدوده يدخله نارا خالدا فيها وله عذاب مهين } أي، لكونه غيَّر ما حكم الله به وضاد الله في حكمه. وهذا إنما يصدر عن  عدم الرضا بما قسم الله وحكم به، ولهذا يجازيه بالإهانة في العذاب الأليم المقيم۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

15/شوال 1443 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب