021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وقف املاک کے کرایہ میں رعایت سے متعلق چند مسائل
76971وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

مفتیان کرام مسئلۂ ذیل کے بارےمیں:

(۱)ہماری مسجد بہت سالوں سے وسط شہر میں ہےاور مسجدکی دوکانیں پرانے کرایہ داروں کےپاس ہیں، پتہ نہیں وہ انھوں نے کیسے حاصل کی تھیں، کچھ سالوں پہلے مسجد کی نئی تعمیر ہوئی محراب کی جانب کافی دوکانیں بناکرٹرسٹیوں نے لوگوں کو پگڑی لیکر دیدی اب وہ پگڑی کی دوکانوں کو لینےوالے خود کرایے پر دیتے ہیں اس میں سے کچھ کرایہ مسجد کو دیتے ہیں اور تقریبا ۷۵ فیصد کرایہ خود رکھ لیتے ہے اور پرانی دوکانیں بھی ٹڑسٹی فروخت کرتے ہیں اور ٹرانسفر کی رقم مسجد میں جمع کرتے ہیں اسطرح کے معاملات میں ہمیں شرعی رہبری کی ضرورت ہے،اب ہم وقف بورڈ میں عرضی کرتے ہیں تو اس کیوجہ سےپرانے کرایے دار جو۵۰۰سے ١٥٠٠ کے درمیان دیتے ہیں آج کرایےکا مارکیٹ ریٹ٣٥ہزارسے ٥٠ہزار تک کے درمیان ہے،وقف بورڈ کے درمیان میں آنےکی وجہ سےوہ کرایہ ١٥ہزار سے ٢٥ہزار کے درمیان ہوسکتا ہے،تو اس طرح ہمیں وقف بورڈ کو بیچ میں ڈالکر پرانے کرایہ داروں سے کرایہ بڑھانا کیسا ہے؟

(٢)مسجد کی دوکانوں کے کرایہ داروں کا خود دوسروں کو کرایہ پر دینا کیسا ہے؟اور وہ رقم کرایہ داروں کےلیے اور خود مسجد کے ٹرسٹیوں کے لیے لینا کیسا ہے

(٣)وقف کے مسائل سے جانکاری نہ رکھنےوالے ٹرسٹی بنے رہنا اور وقف کے مال کوضائع کرتے رینا کیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۱۔وقف املاک کو عامۃ الناس کے لیے رعایتی کرایہ پر دینا جائز نہیں ، لہذا سابق معاہدہ منسوخ کرنا ضروری ہے اور وقف بورڈ کے ذریعہ بھی معروف کرایہ لینا اور معروف مقدار میں رایت جائز ہے اس سے زائد جائز نہیں۔(فتاوی محمودیہ :۱۴،ص۱۲۳)

۲۔نہ یہ معاملہ جائز ہے اور نہ رقم لینا جائز نہیں۔(احسن الفتاوی:ج۶،ص۵۲۸)

۳۔ایسا متولی واجب العزل ہے۔(احسن الفتاوی:ج۶،ص۵۱۰)

حوالہ جات
۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

 ۲۲ شوال ۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب