021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بعض ورثا کا مشترکہ مکان خرید نے کا حکم
76989میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

ہم تین بھائی اور  ایک بہن ہے ،والد صاحب  کے انتقال کے بعد  ان کا مکان 44 لاکھ میں  فروخت ہوا پھر میراث  کی رقم   ہم تین  بھائی  ایک بہن  اور  والدہ  کے درمیان اس طرح  تقسیم ہوا۔  محمد  عاطف کو 11 لاکھ۔ محمد  زوہیب 12  لاکھ  ۔ محمد اویس 11لاکھ  ارسلا منیب  ساڑھے پانچ لاکھ اور ہماری  والدہ کو ساڑھے  پانچ لاکھ روپے دئے گئے۔ہمارے ایک بھائی  محمد  زوہیب اپنا حصہ لیکر  الگ  ہوگئے ، باقی  ہم دونوں بھائی  بہن اور والدہ  ،چاروں  نے اپنے اپنے  حصے ملاکر ایک مکان بنایا ۔اس میں محمد  عاطف  اوراویس اور  والدہ کی رہائش تھی ،اب ہماری  والدہ  اس دنیا میں نہیں رہی۔میں  محمد عاطف والدہ   نے ترکہ کے حصے کے علاوہ  کچھ اضافی   رقم شامل کرکے   مکان کو مکمل کیا ہے ۔

مکان کی تعمیر میں  شامل ہونے والی  رقم کی تفصیل یہ  ہے کہ

والدہ کی کل  رقم  ساڑھے آٹھ لاکھ

محمد  عاطف کی   24لاکھ  5 ہزار روپے

ارسلا منیب کی     ساڑھے  پانچ لاکھ  روپے

محمد  اویس کی  11 لاکھ روپے

اب اس مکان کی تقسیم کے لئے فتوی  درکار ہے ۔ ہم شرکا ء  کی  رقم کم وزیادہ  ہیں  تقسیم  کیا طریقہ ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

موجودہ  مکان   میں  زوہیب کا حصہ نہیں ہے کیونکہ  اس نے اس میں سرمایہ نہیں  لگایا  باقی چاروں  شرکا ء کا حق  ہے۔ اس  مکان کو تقسیم کرنے کا طریقہ    یہ ہے کہ  مکان کی قیمت فروخت لگائی  جائے  پھر  چاروںشریکوں  کو  اصل سرمایہ کے تنا سب سے  حصہ دیاجائے ۔

 فیصدی   تناسب سے شرکاء کے حصے   اس طرح ہونگے۔

والدہ حصہ   = ٪329 . 17

عاطف کاحصہ               =  ٪   49.031

اویس   کا حصہ                 =  ٪      22.42

ارسلا منیب  کا حصہ                         =  ٪  21  .11

 چونکہ  آپ کی والدہ کا انتقال  ہوچکا  ہے  ان کی  میراث  چاروں اولاد میں  تقسیم ہوگی ۔

والدہ  کی میراث کی  تقسیم   اسطرح ہوگی  کہ   انتقال کے وقت    ان کی ملک میں منقولہ غیر منقولہ  جائداد  سونا  چاندی   اور چھوٹا  بڑاجوبھی سامان  تھا  اس مجموعہ میں  مکان سے ملنے والا حصہ شامل کیاجائے ۔  یہ سب مرحومہ  کا ترکہ  ہے ، اس  میں سے اولامرحومہ  کے کفن دفن کا متوسط خرچہ نکالا جائے ،اس کے بعد  اگر مرحومہ  کے ذمے کسی کا  قرض ہو  تو اس کو ادا کیاجائے ۔ اسکے بعد اگر مرحومہ نے  کسی  غیر وارث کےحق میں کوئی جائز وصیت کی ہو   تو  تہائی  مال کی حد  تک اس پر عمل کیاجائے ۔ اس کے بعد مال  کو مساوی  7 حصوں پر  تقسیم کرکے  مرحومہ  کے  تینوں لڑکوں کو دد دو  حصے اور لڑکی ارسلامنیب  کوایک  حصہ دیاجائے۔

حوالہ جات
....

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

 دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

۲٦شوال ١۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب