021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جماعت اشاعت التوحیدسےتعلق رکھنےوالے کی امامت کاحکم
76981نماز کا بیانامامت اور جماعت کے احکام

سوال

سوال:باسمہ تعالی !کیافرماتےہیں علماء کرام ومفتیان عظام مندرجہ ذیل مسئلہ کےبارےمیں کہ ہمارے گاؤں کاامام مسجد ہےجوکہ متقی،پرہیز گاراورمتبع شریعت ہےاورمسجد کےجملہ امور کی ذمہ داری اسی کی ہوتی ہے،تقریبا 20سال سےبلاعوض امامتی کراتاہے،ان کامشغلہ درو س قرآن ہےاوراختلافات میں پڑھنے اورایسے مسائل بیان کرنےسے بھی دوررہتاہے،اورتعلق ان کااشاعۃ التوحیدوالسنۃ سےہے،گاؤں کےبعض لوگوں کاکہناہےکہ اس کے پیچھے نمازنہیں ہوتی ،کیونکہ اس کاتعلق اشاعۃ التوحید والسنہ سےہے۔

۱۔کیاہماری نماز ان کے پیچھے ہوتی ہے؟

۲۔کیاہم ان کے درس قرآن کوسنیں؟برائےمہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دے کر آگاہ فرمائیں۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ مسئلہ کےجواب سے پہلےیہ مسئلہ ذہن میں رہے کہ اہل السنہ والجماعہ کااجماعی عقیدہ ہےکہ آپ صلی  اللہ علیہ وسلم اپنی قبرمبارک میں زند ہ ہیں،اوریہ حیات حقیقی جسمانی حیات ہے،جوروح کےجسم کے ساتھ تعلق کی صورت میں ہے،انبیائےکرام علیہم السلام کی روحوں کاان کے مدفون اجسام کےساتھ تعلق اتناقوی ہےکہ اس کی بناء پر ان کوشہداء سےبھی زیادہ قوی حیات حاصل ہے،نیزروح کابدن کےساتھ تعلق احادیث صحیحہ کثیرہ سےثابت ہے،البتہ اس تعلق کی کنہ اورحقیقت اللہ ہی کےعلم میں ہے،اگرکوئی شخص روح کےجسم کےساتھ تعلق کاانکارنہیں کرتاتواس کےپیچھےنماز پڑھناجائزہے۔

اگرکوئی امام اس مذکورہ بالا عقیدہ کےخلاف عقیدہ رکھتاہویعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےمتعلق قبرمیں جسمانی  حیات  کابالکلیہ انکار کرےاورجسم مبارک کومردہ سمجھتاہوتویہ عقیدہ چونکہ قرآن پاک ، احادیث مبارکہ  کی تصریح اوراہل السنہ والجماعہ کے اجماعی عقیدےکےخلاف ہے، اس لیےایسے شخص کےپیچھےنماز پڑھنامکروہ  ہوگااورمسجد کمیٹی پرلازم ہوگاکہ اس کےمتبادل کاانتظام کیاجائے،پھربھی جب تک متبادل کاانتظام نہ ہو،ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنےکی شرعاگنجائش ہے۔

صورت مسئولہ میں بھی امام سے متعلق تحقیق کرلی جائے،اگرامام کاعقیدہ اہل السنہ والجماعہ کے اجماعی عقیدےکےمطابق ہےتوایسےامام کے پیچھے نماز پڑھنا بلاکسی کراہت کےدرست ہوگا،اس صورت میں امام سے متعلق لوگوں کی باتوں میں نہیں آناچاہیے،اور اگر امام کےعقائدواقعتا اہل السنہ الجماعۃ کےعقائدکےخلاف ہوں تواس صورت میں امام کے پیچھےنماز پڑھنا مکروہ ہوگااورجلدازجلدمتبادل کاانتظام بھی ضروری ہوگا،ہاں جب تک متبادل کاانتظام نہ ہو،اس وقت تک اختلاف اونتشارسےبچنے کےلیےاسی امام کے پیچھےنماز پڑھ لی جائے۔

حوالہ جات
"فيض البارى شرح صحيح البخارى 2 /  215:ونقل عن مالك رحمه الله أن احترام النبي صلى الله عليه وسلم بعد وفاته أيضا كما كان في حياته     وفي البيهقي عن أنس وصححه ووافقه الحافظ في المجلد السادس «أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون»۔۔۔
"شرح الشفاء" 2/142:قال الملاعلی قاری رحمہ اللہ ؛المعتقد المعتمد انہ صلی اللہ علیہ وسلم حی فی قبرہ کسائرالانبیاء فی قبورھم وھم احیاء عندربھم،وان لارواحہم تعلقابالعالم العلوی والسفلی  کماکانوا فی الحال الدنیوی ،فھم بحسب القلب عرشیون وباعتبار القالب فرشیون ۔
"فتح الباري - ابن حجر " 6 / 487:وقد جمع البيهقي كتابا لطيفا في حياة الأنبياء في قبورهم أورد فيه حديث أنس الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون أخرجه من طريق يحيى بن أبي كثير وهو من رجال الصحيح عن المستلم بن سعيد وقد وثقه أحمد وبن حبان عن الحجاج الأسود وهو بن أبي زياد البصري وقد وثقه أحمد وبن معين عن ثابت عنه وأخرجه أيضا أبو يعلى في مسنده من هذا الوجه وأخرجه البزار لكن وقع عنده عن حجاج الصواف وهو وهم والصواب الحجاج الأسود كما وقع التصريح به في رواية البيهقي وصححه البيهقي وأخرجه أيضا من طريق الحسن بن قتيبة عن المستلم وكذلك أخرجه البزار وبن عدي والحسن بن قتيبة ضعيف وأخرجه البيهقي أيضا من رواية محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى أحد فقهاء الكوفة عن ثابت بلفظ آخر قال أن الأنبياء لا يتركون في قبورهم بعد أربعين ليلة ولكنهم يصلون بين يدي الله حتى ينفخ في الصور۔۔
"الدر المختار للحصفكي "1 /  602:(ويكره) تنزيها (إمامة عبد) (وأعرابي) ۔۔(وفاسق وأعمى) ونحوه الاعشى.نهر (إلا أن يكون) أي غير الفاسق (أعلم القوم) فهو أولى (ومبتدع) أي صاحب بدعة،وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندة بل بنوع شبهة، وكل من كان من قبلتنا (لايكفر بها) حتى الخوارج الذين يستحلون دماءنا وأموالنا وسب الرسول، وينكرون صفاته تعالى وجواز رؤيته لكونه عن تأويل وشبهة بدليل قبول شهادتهم، إلا الخطابية ومنا من كفرهم ۔۔۔                 

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

 /26شوال 1443 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب