021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کی طرف نسبت کئے بغیر طلاق،طلاق،طلاق کہنا
76985طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

کیا فرماتے مفتیان وہ علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میاں بیوی میں لڑائی ہوئی،پھر خاوند بھائی کے گھر گیا،پھر بھائی بہنوں نے مل کرصلح کی صورت بنانے واسطے سب اکٹھے ہوئے اور بیوی کو آن لائن کال پر لیا،تو باتیں کرتے ہوئےمیاں بیوی میں غصے میں سخت  الفاظ کا تکرار ہوا اور نازیبا جملوں کا استعمال کیا گیا تو خاوند نے نازیبا جملے  سننے کے بعد  غصے میں آ کر  کہا سن: طلاق طلاق طلاق،لیکن یہاں پر اس نے اپنی بیوی کو یہ نہیں کہا کہ میں آپ کو طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتا ہوں،صرف اپنی ہنکو زبان میں اسے کہا:طلاق طلاق طلاق،کیا مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہوگی؟

گواہوں کا بیان:

We set up a meeting with my brother’s wife to sort the situation out. The meeting was conducted via phone call. My brother had no intention of divorcing her, during  the discussion she was asked do you want to reconcile and she said no and was being verbally abusive in that instance my brother said I don’t want to live with you either and said talaq talaq talaq.

Amna bibi

2۔دوسرے گواہ محمد سجاد اس کا بھی یہی موقف ہے۔

خاوند:

 We set up a meeting with my wife to sort the situation out. The meeting was conducted via phone call. I had no intention of divorcing her, during  the discussion she was asked do you want to reconcile and she said no and was being verbally abusive in that instance said I don’t want to live with you either and said talaq talaq talaq.

اس صلح نامہ کے اندر اس کا بھائی بھی موجود تھا اور اس کا بھی یہی موقف ہے جو ان سب گواہوں کا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

طلاق واقع ہونے کے لیے الفاظ میں بیوی کی طرف صریح نسبت ضروری ہے،بلکہ معنوی طور پر نسبت بھی کافی ہے ، معنوی نسبت کا مطلب یہ ہے کہ شوہر کے الفاظ میں خطاب کی ضمیر کے ساتھ بیوی کی طرف لفظوں میں طلاق کی صریح نسبت موجود نہ ہو،بلکہ اسم ظاہر،خطاب کے علاوہ دیگر ضمائر یا صرف اسم اشارہ کے ذریعے بیوی کی طرف طلاق ہو، مثلا زینب کو طلاق،میری بیوی کو طلاق،یا بیوی کی طرف اشارہ کرکے کہے:اسے طلاق ،یا ان کے علاوہ دیگر  ایسے قرائن موجود ہوں جن سے معلوم ہورہا ہو کہ یہ بیوی کو ہی طلاق دے رہا ہے،اضافت معنویہ کے کئی قرائن ہیں جن میں ایک تخاطب بھی ہے،یعنی شوہر بیوی کو مخاطب کرکے کہے:طلاق ہے،یاصرف طلاق،طلاق،طلاق کہے۔

چونکہ مذکورہ صورت میں شوہر نے بیوی کو لفظ "سن" کے ذریعے مخاطب کرکے تین بار طلاق کے الفاظ بولے ہیں،اس لئے مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،جس کے بعد اب موجودہ حالت میں ان دونوں کا دوبارہ نکاح ممکن نہیں رہا۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (3/ 247):
"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ ":(قوله: لتركه الإضافة) أي المعنوية فإنها الشرط والخطاب من الإضافة المعنوية، وكذا الإشارة نحو هذه طالق، وكذا نحو امرأتي طالق وزينب طالق. اهـ.

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

27/شوال1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب