021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
معتکفین کا نچلی منزل پرحدود مسجد سے خارج سیڑھیوں کے ذریعہ سے جانا
76975روزے کا بیاناعتکاف کا بیان

سوال

مسجد کی دوسری منزل  پر اعتکاف کرنے والے معتکفین  نیچے والی منزل پر سیڑھیوں کے ذریعہ  سے جانا جبکہ وہ حدود مسجد سے باہر ہو، اسی طرح کھانے پینے ، مسجد کی صفائی ،دورازہ کھولنے ،بند کرنے وغیرہ ،نیز فرض نماز (جبکہ شرعی ضرورت ہے) ،تہجد ،تلاوت ،تسبیح اور انفرادی اعمال کی غرض سے معتکفین کا جائے اعتکاف سے نیچے والی منزل پر آنے کا کیا حکم ہے؟  نیز شرعی وطبعی ضرورت میں کیا کیا چیزیں داخل ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سؤال میں پوچھے گئے   امور میں سے بعض اگرچہ شرعی یا طبعی ضرورت میں داخل ہیں ،لیکن یہ ضرورتیں چونکہ مسجد کی اوپر کی منزل میں بھی پوری ہوسکتی ہیں،  ،لہذا ان کے لیے مسجد کی نچلی منزل میں  باہر سے ہوکر داخل ہونا جائز نہیں،لہذا غیر طبعی وشرعی ضرورتوں کے لیے جانا بطریق اولی ممنوع اور ناجائز وگناہ ہوگا اور ایسا کرنے سے مسنون اعتکاف مشہور مفتی بہ قول کے مطابق ٹوٹ جائے گا،البتہ مسجد میں خالی صفوں کو پرکرنے کے لیےجانا جائز ہے۔

معتکف کے لیے شرعی ضرورت وہ عمل ہے جس کا ادا کرنا فرد کی شرعی ضرورت اور تقاضا ہواور مسجدمیں اداء نہ ہو،جیساکہ نماز جمعہ کی ادائیگی  کے لیے نکلنا اور طبعی ضرورت وہ کام ہےجس کا ادا کرنا فرد کی طبعی ضرورت اور تقاضا ہواور مسجد میں اس کی ادائیگی درست نہ ہو،جیسے قضائے حاجت،

حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (3/ 126)
وصعود المعتكف على المئذنة لا يفسد اعتكافه أما إذا كان باب المئذنة في المسجد فهو والصعود على سطح المسجد سواء وإن كان بابها خارج المسجد فكذلك من أصحابنا من يقول: هذا قولهما فأما عند أبي حنيفة - رضي الله عنه - فينبني أن يفسد اعتكافه للخروج من المسجد من غير ضرورة والأصح أنه قولهم جميعا واستحسن أبو حنيفة هذا؛ لأنه من جملة حاجته فإن مسجده إنما كان معتكفا لإقامة الصلاة فيه بالجماعة، وذلك إنما يتأتى بالأذان وهو بهذا الخروج غير معرض عن تعظيم البقعة أصلا بل هو ساع فيما يزيد في تعظيم البقعة فلهذا لا يفسد اعتكافه.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 445)
وأذان لو مؤذنا وباب المنارة خارج المسجد
 (قوله لو مؤذنا) هذا قول ضعيف والصحيح أنه لا فرق بين المؤذن وغيره كما في البحر والإمداد ح (قوله وباب المنارة خارج المسجد) أما إذا كان داخله فكذلك بالأولى قال في البحر: وصعود المئذنة إن كان بابها في المسجد لا يفسد وإلا فكذلك في ظاهر الرواية اهـ ولو قال الشارح وأذان ولو غير مؤذن وباب المنارة خارج المسجد لكان أولى ح.
قلت: بل ظاهر البدائع أن الأذان أيضا غير شرط فإنه قال: ولو صعد المنارة لم يفسد بلا خلاف وإن كان بابها خارج المسجد لأنها منه لأنه يمنع فيها من كل ما يمنع فيه من البول ونحوه فأشبه زاوية من زوايا المسجد اهـ لكن ينبغي فيما إذا كان بابها خارج المسجد أن يقيد بما إذا خرج للأذان لأن المنارة وإن كانت من المسجد، لكن خروجه إلى بابها لا للأذان خروج منه بلا عذر وبهذا لا يكون كلام الشارح مفرعا على الضعيف ويكون قوله وباب المنارة إلخ جملة حالية معتبرة المفهوم فافهم

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

 ۲۸ شوال ۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب