021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سال کی مہلت دیے بغیرمجنون کی بیوی کے عدالتی خلع کا حکم (اہم فتوی)
77123طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

ایک خاتون کا نکاح اپنے چچا زاد بھائی سے ہوا، لڑکی کا خاندان راوالپنڈی اور لڑکے کا حیدرآباد میں تھا، اس لیے لڑکے کی صحیح صورتِ حال کا علم نہ تھا، شادی کے بعد صورتِ حال کا علم ہوا کہ لڑکا نفسیاتی مریض ہے، شادی سے پہلے بھی نفسیاتی ہسپتال میں زیرِ علاج رہا ہے، شادی کے دو ماہ بعد تک لڑکی سسرال میں رہی، اس دوران لڑکی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ایک مرتبہ چاقو سے لڑکی کو ذبح کرنے کی بھی کوشش کی گئی، لڑکی نے بڑی مشکل سے جان بچائی، لڑکی نے روالپنڈی عدالت میں خلع کا دعوی دائر کیا، شوہر کو تین مرتبہ نوٹس بھیجے گئے، مگر وہ نہ آیا، لڑکے کے والد سے بات کی گئی تو اس نے کہا کہ میرا لڑکا اس پوزیشن میں نہیں کہ میں اس کو عدالت میں پیش کروں، آپ خلع کی ڈگری لے لو، عدالت نے خلع کی ڈگری جاری کر دی۔ خلع کے بعد لڑکے کے والد نے جہیز کا سامان راوالپنڈی روانہ کر دیا، لڑکی چار سال سے اپنے والدین کے گھر میں ہے، لڑکے کی صورتِ حال بدستور اسی طرح ہے، مختلف ہسپتالوں میں داخل رہنے کے باوجود درست نہیں ہوا، اسی مہینے مئی ۲۰۲۲ھ کو اس کے بارے میں معلومات لی گئیں تو معلوم ہوا کہ کیماڑی کے نفسیاتی ہسپتال میں داخل ہے، وہاں جا کر معلوم کیا تو چوکیدار نے بتایا کہ وہ تین ماہ سے ایڈمٹ ہے، اس کے ورثہ کی تحریری اجازت کے بغیر میں اس سے ملاقات  نہیں کروا سکتا۔ اس ساری صورتِ حال کے پیشِ نظر عدالتی خلع کا کیا حکم ہے؟

وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ عدالت میں لڑکی کا بھائی اور والد بطورِ گواہ پیش ہوئے تھے، اس کے علاوہ ہم نے اس بات کی  پوری تحقیق کی ہے کہ یہ شخص ذہنی مریض ہے، نیز خاتون کی والدہ نے بتایا کہ لڑکی کو نفیساتی ہونے کا علم ہونے کے بعد اس نے صراحتاً بھی رضامندی کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اپنی رضامندی سے جماع یا دواعی جماع کی صورت پیش آنے دی، بلکہ وہ کہتی تھی کہ یہ تو ذہنی مریض ہے میں اس کے ساتھ کیسے رہ سکتی ہوں؟ نیز سائل نے  بتایا کہ نکاح کے موقع پر  ذہنی توازن درست نہ ہونے کی وجہ سے لڑکے نے زبان سے قبول نہیں کیا، بلکہ  لڑکے کے والد نے  قبول کیا اور کہا کہ لڑخا نکاح نامہ پر دستخط کر دے گا، اس طرح  لڑکے نے صرف نکاح نامہ پر دستخط کیے تھے، اس کے علاوہ لڑکے کے والد نے بتایا کہ لڑکا نفسیاتی مریض ہے، دوائی استعمال کر رہا ہے اور نفسیاتی ہسپتال میں داخل بھی رہا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً شخصِ مذکور چار پانچ سال سے ذہنی مرض میں مبتلا ہے اور کئی ہسپتالوں سے علاج کروانے کے باوجود ابھی تک صحت یاب نہیں ہوا تو یہ شخص مجنونِ مطبَق (جنونِ مطبِق کی تعریف میں فقہائے کرام رحمہم اللہ نے چار اقوال ذکر کیے ہیں، ان میں سے بعض نے ایک مہینہ اور بعض نے ایک سال تک مسلسل دماغی توازن درست نہ رہنے کے قول کو مفتی بہ قرار دیا ہے، دونوں اقوال کے مطابق یہ شخص جنونِ مطبِق کی حد میں داخل ہو چکا ہے) کے حکم میں ہے اور ایسے شخص کا جنون جب عدالت میں گواہوں کے ذریعہ ثابت ہو جائے تو قاضی اور جج اس کی بیوی کے مطالبہ پر بغیر علاج کی مہلت دیے فوراً نکاح فسخ کر سکتا ہے، جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں امام محمدرحمہ اللہ کا قول الحاوی القدسی کے حوالے سے اسی طرح نقل کیا گیا ہے اور حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی رحمہ اللہ نے اسی قول پر عمل کرتےہوئے ایک سوال کے جواب میں بغير کسی مہلت دينے کے حاکم کو نکاح فسخ کرنے کی گنجائش دی ہے، دیکھیے عبارت:

"اہل السنت والجماعہ حنفی مذہب کے موافق بھی مجنون کی بیوی اپنا نکاح فسخ کرا سكتی ہے اور اب جبکہ جنون کو دس بارہ سال کا عرصہ ہو گیا ہے، بغیر کسی مہلت کے کوئی حاکم (مسلم) نکاح فسخ کر سکتا ہے۔"

  (كفايت المفتی:ج:8ص:395، ط:دارالاشاعت كراچی)

لہذا سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق  اگر شوہر کے نفسیاتی ہونے کا علم ہونے کے بعد عورت نے صراحتاً یادلالتاً اس کے ساتھ رہنے پر رضامندی ظاہر نہیں کی، تو اس صورت میں اس کو تنسیخِ نکاح کا حق حاصل ہے،  لیکن سوال کے ساتھ منسلک عدالتی فیصلہ شرعاً معتبر نہیں، کیونکہ عدالت کی طرف سے جاری کردہ فیصلہ میں شرعی شرائط کا لحاظ نہیں رکھا گیا، کیونکہ شرعاً اصول وفروع کی گواہی کا اعتبار نہیں، اس لیے باپ کی گواہی بیٹی کے حق میں درست  نہیں، اور ایک گواہ فیصلے کے لیے ناکافی ہے، لہذا اس فیصلہ کی وجہ سے فریقین کے درمیان  شرعاًنکاح ختم نہیں ہوا۔البتہ چونکہ قانونی طور پر نکاح ختم ہوچکا ہے اس لیے شرعا نکاح فسخ کرنے کی صورت یہ ہے کہ اگر کسی بھی صورت میں لڑکی شخصِ مذکور کے ساتھ نہیں  رہنا چاہتی تومالکیہ کے مسلک کے مطابق  جماعت المسلمین کے ذریعہ فیصلہ کروا لیا جائے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ علاقے کے چار پانچ سمجھدار اور دیندار لوگوں کو جمع کیا جائے، ان میں ایک یا دو عالم بھی ہوں، ان کے سامنے عورت خود یا اس کا وکیل دعوی پیش کرے، فیصلہ کرنے والی جماعت  دعوی سننے کے بعد شوہر کو نوٹس جاری کرے، اگر شوہر نہ آئے توعورت

گواہوں کے ذریعہ شوہر کے ذہنی مریض ہونے کو ثابت کر دے تو یہ  حضرات عورت کے مطالبہ  پرفریقین کے درمیان تنسیخِ نکاح کا فیصلہ کر دیں، اس کے بعد فیصلہ جاری ہونے کی تاریخ سے عورت کی عدت شروع ہو جائے گی، عدت گزارنے کے بعد عورت دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

حوالہ جات
الفتاوي الهنديه ،كتاب الطلاق،الباب الثانی عشرفي العنين،1/579،مطبع:دار الفكر:
قال محمد رحمه الله تعالى إن كان الجنون حادثا يؤجله سنة كالعنة ثم يخير المرأة بعد الحول إذا لم يبرأ وإن كان مطبقا فهو كالجب وبه نأخذ كذا في الحاوي القدسي۔
الفتاوى الهندية (3/ 638)كتاب الوكالة،  الباب التاسع فيما يخرج به الوكيل عن الوكالة، ط: دار الفكر:
وحد الجنون المطبق شهر عند أبي يوسف - رحمه الله تعالى - وعند محمد - رحمه الله تعالى - حول كامل وهو الصحيح كذا في الكافي.
بدائع الصنائع،كتاب النكاح،فصل في ما سوي العيوب الخمسة، (2/ 327)،دارالكتب العلمية:
وقال محمد: خلوه من كل عيب لا يمكنها المقام معه إلا بضرر كالجنون والجذام والبرص، شرط لزوم النكاح حتى يفسخ به النكاح، وخلوه عما سوى ذلك ليس بشرط، وهو مذهب الشافعي.
(وجه) قول محمد أن الخيار في العيوب الخمسة إنما ثبت لدفع الضرر عن المرأة وهذه العيوب في إلحاق الضرر بها فوق تلك؛ لأنها من الأدواء المتعدية عادة.
البحرالرائق،كتاب الطلاق،باب العنين و غيره،4/207،دارالكتب العلميه:
ويفرق بينهما للحال في الجب وبعد التأجيل في العنين؛ لأن الجنون لا يعدم الشهوة، بخصومة ولي إن كان وإلا فمن ينصبه القاضي.
البحر الرائق (3/ 132)كتاب النكاح، باب الأولياء والأكفاء ط: دار الكتاب الإسلامي:
(قوله ولا ولاية لصغير وعبد ومجنون) ؛ لأنه لا ولاية لهم على أنفسهم فأولى أن لا يثبت على غيرهم ولأن هذه ولاية نظرية ولا نظر في التفويض إلى هؤلاء أطلق في العبد فشمل المكاتب فلا ولاية له على ولده كذا في المحيط لكن للمكاتب ولاية في تزويج أمته كما عرف وأراد بالمجنون المطبق وهو شهر وعليه الفتوى.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 77) كتاب النكاح، باب الولي، دار الفكر-بيروت:
لا يزوج في حال جنونه مطبقا أو غير مطبق، ويزوج حال إفاقته عن المجنون بقسميه، لكن إن كان مطبقا تسلب ولايته فلا تنتظر إفاقته وغير المطبق الولاية ثابتة له فتنتظر إفاقته كالنائم، ومقتضى النظر أن الكفء الخاطب إذا فات بانتظار إفاقته تزوج موليته، وإن لم يكن مطبقا وإلا انتظر على ما اختاره المتأخرون في غيبة الولي الأقرب على ما سنذكره فتح وتبعه في البحر والنهر والمطبق شهر وعليه الفتوى بحر.
درر الحكام شرح مجلة الاحكام: (ج:2ص:656، المادة:944) باب الحجر والاكراه والشفعةط: المكتبة العربية ، كوئٹة:
ويكون لفظ المطبق إذا جاء بصفة للجنون بكسر الباءوإذا جاء صفة للمجنون يكون بفتحها، في الجنون المطبق أربعة أقوال:
القول الأول الجنون المطبق  هو الذي يمتد إلى سنة كاملة، لأن الجنون إذا انقلبت عليه الفصول الأربعة ولم يفق من جنونه علم أن جنونه مستحكم، والفتوى في حق التصرفات على تقدير الجنون لمدة سنة۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔والقول الثاني: الجنون المطبق لمدة شهر أي الجنون الذي يمتد شهرا كاملا وقد رجح هذا القول بقول "وبه يفتى" وأشعر قول الخانية "وعليه الفتوى"
القول الثالث: هو كالجنون الذي يمتد أكثر من سنة۔ القول الرابع: هو الجنون الذي يستوعب أكثر من يوم وليلة.
الشرح الكبير للشيخ الدردير وحاشية الدسوقي (2/ 277) دار الفكر،بيروت:
 (فصل) في خيار أحد الزوجين إذا وجد بصاحبه عيبا وبيان العيوب التي توجب الخيار في الرد (الخيار) لأحد الزوجين بسبب وجود عيب من العيوب الآتي بيانها فقوله: الخيار مبتدأ، وقوله: ببرص إلخ متعلق الخبر المحذوف أي ثابت ببرص وقوله: (إن لم يسبق العلم) إلخ شرط في الخبر أي ثابت للسليم أو لمن وجد في صاحبه عيبا، ولو كان هو معيبا أيضا فله القيام بحقه من الخيار وعيبه لا يمنعه من ذلك إن لم يسبق علمه بعيب المعيب على العقد (أو لم يرض) بعيب المعيب صريحا أو التزاما حيث اطلع عليه بعد العقد (أو) لم (يتلذذ) بالمعيب عالما به وأو بمعنى الواو، إذ لا بد من انتفاء الأمور الثلاثة، إذ لو وجدت أو بعضها لانتفى الخيار. إلا امرأة المعترض (من لايقدر على الجماع )إذا علمت قبل العقد أو بعده باعتراضه ومكنته من التلذذ بها فلها الخيار حيث كانت ترجو برأه فيهما ولم يحصل.
                                                                                                                                                "شرح مختصر خليل للخرشي" (4/ 198) دار الفكر للطباعة ، بيروت: 
"وجماعة المسلمين العدول يقومون مقام الحاكم في ذلك وفي كل أمر يتعذر الوصول إلى الحاكم أو لكونه غير عدل ".
 
 

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

29/شوال المکرم1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب