021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جانور خریدنے، پالنے اور دودھ بیچنے کے بدلے نفع میں شرکت کا حکم
77000شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

ایک شخص کسی کو پانچ لاکھ روپے دے کر کہتا ہے کہ آپ اس رقم سے بھینسیں خریدیں، ان کا دودھ بیچا کریں، اور مجھے ہر ماہ بیس ہزار روپے بہر حال دیں۔ بیس ہزار سے زائد جو رقم ہوگی وہ دونوں مخصوص فیصدی تناسب مثلا پچاس پچاس فیصد کے حساب سے تقسیم کریں گے۔ اس میں رقم ایک شخص کی طرف سے ہے، اور کام دوسری شخص کی طرف سے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟ اگر جائز نہیں تو اس کی کوئی جائز صورت ہوسکتی ہے ؟

تنقیح: سائل نے سوال کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ بیس ہزار روپے بھینسوں کے مالک کو دینے کے بعد جو بچے گا، اس کے بارے میں یہ طے کیا ہے کہ وہ دونوں میں فیصدی اعتبار سے تقسیم کیا ہے۔  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ بالا طریقے کے مطابق معاملہ کرنا جائز نہیں؛ یہ معاملہ شرعا نہ شرکت کے اصولوں پر پورا اترتا ہے، نہ مضاربت کے اصولوں پر، اور نہ ہی اجارہ کے اصولوں پر۔ شرکت اس لیے نہیں کہ شرکت میں دونوں طرف سے مال یا ضمان ہوتا ہے، جبکہ یہاں کام کرنے والے کی طرف سے نہ مال ہے، نہ ضمان۔ مضاربت اس لیے نہیں کہ مضاربت میں مضارب رأس المال (مالک کی دی ہوئی رقم) سے تجارت یعنی اشیاء کی خرید وفروخت کرتا ہے، جبکہ یہاں پر مالک کی دی ہوئی رقم سے جو بھینسیں خریدی جاتی ہیں، انہیں بیچ کر نفع نہیں کمایا جاتا، بلکہ وہ مالک کی ملکیت میں رہتی ہیں، ان کا دودھ بیچا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ شرکت اور مضاربت میں کسی ایک فریق کے لیے نفع میں سے لم سم رقم طے کرنا جائز نہیں، جبکہ یہاں پیسے دینے والے کے لیے بیس ہزار رقم متعین کی جارہی ہے۔ اور یہ معاملہ اجارہ اس لیے نہیں ہوسکتا کہ اجارہ میں اجیر کی اجرت متعین ہونا ضروری ہے، فیصدی تناسب سے اجرت طے کرنا جائز نہیں، جبکہ صورتِ مسئولہ میں ایک تو بیس ہزار رقم اولا مالک کو دینے کی بات کی گئی ہے جس کی وجہ سے یہ معلوم نہیں کہ دودھ سے آنے والی رقم بیس ہزار سے زائد ہوگی بھی یا نہیں ؟ اور اگر ہوگی تو کتنی ہوگی  اور پھر کام کرنے والے کے لیے اس کی طے شدہ فیصد کی کتنی رقم بنے گی۔ لہٰذا اجرت کی جہالتِ فاحشہ کی وجہ سے اس معاملے کو اجارہ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ نیز بعض صورتوں میں مدتِ اجارہ بھی معلوم نہیں ہوتی کہ وہ شخص کتنا عرصہ یہ جانور پالے گا؟ اور مدت کی جہالت بھی اجارہ کو فاسد کردیتی ہے۔

شرکت کی بنیاد پر اس معاملے کی تصحیح اس طرح ممکن ہے کہ  جب بھینسیں خریدی جائیں تو بھینسوں  کا مالک یعنی رقم دینے والا  اس دوسرے آدمی کو آدھی بھینسیں متعین قیمت کے بدلے بیچ دے ،اس کے بعد اس کی قیمت معاف کر دے یا ایک متعین مدت تک قیمت ادھار اور مؤخر کردے، اس طرح یہ بھینسیں اور ان کے منافع ( بچے ، دودھ اور گوبر وغیرہ ) ان دونوں کے درمیان مشترک ہوں گے، لہٰذا کسی ایک کے لیے متعین رقم طے کرنا جائز نہیں ہوگا کہ اولاً اسے اتنی رقم دی جائے گی، پھر باقی نفع دونوں میں تقسیم ہوگا، بلکہ بھینسوں میں دونوں کی ملکیت کا جو تناسب ہوگا، منافع میں بھی دونوں اسی نسبت سے شریک ہوں گے۔ نیز ا س صورت میں اگر بھینسوں کی دیکھ بھال کرنے اور دودھ بیچنے والا شخص کسی وقت بھینسیں دینے والے سے اس کی بھینسوں کے چارہ اور انہیں پالنے کی اجرت کا مطالبہ کرے تو وہ یہ خرچہ اور اجرت دینے کا پابند ہوگا۔

اور اجارہ کی بنیاد پر اس معاملے کی تصحیح کی صورت یہ ہے کہ بھینسیں خرید کر پالنے اور دودھ بیچنے والے کے لیے ماہانہ یا سالانہ بنیاد پر متعین اجرت طے کی جائے، جیسا کہ اجارہ کے عام معاملات میں ہوتا ہے۔ باقی جانور، اس کی قیمت میں ہونے والا اضافہ، اور دیگر تمام منافع دودھ، بچے، گوبر وغیرہ مالک کے ہوں گے۔ اور جانور کےچارہ سمیت تمام خرچے بھی مالک ہی کے ذمے ہوں گے۔  

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (4/ 445):
دفع بقرةً إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة، وعلى صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه لا ما سرحها في المرعى، ويرد كل اللبن إن كان قائما، وإن أتلف فالمثل إلى صاحبها؛ لأن اللبن مثلي، وإن اتخذ من اللبن مصلا فهو للمتخذ، ويضمن مثل اللبن لانقطاع حق المالك بالصنعة.
والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن، ويبرئه عنه، ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل، فيكون بينهما.
المغني (6/ 7):
فصل : ولو استأجر راعيا لغنم بثلث درها ونسلها وصوفها وشعرها أو نصفه أو جميعه لم يجز، نص عليه أحمد في رواية جعفر بن محمد النسائي؛ لأن الأجر غير معلوم، ولا يصلح عوضا في
البيع.  وقال إسماعيل بن سعيد : سألت أحمد عن الرجل يدفع البقرة إلى الرجل على أن يعلفها ويتحفظها وما ولدت من ولد بينهما، فقال : أكره ذلك، وبه قال أبو أيوب وأبو خيثمة : ولا أعلم فيه مخالفا، وذلك لأن العوض مجهول، معدوم ،ولا يدري أيوجد أم لا، والأصل عدمه، ولا يصلح أن يكون ثمنا.
 فإن قيل : فقد جوزتم دفع الدابة إلى من يعمل عليها بنصف ربحها، قلنا : إنما جاز ثَم تشبيهًا بالمضاربة؛ لأنها عين تنمى بالعمل فجاز اشتراط جزء من النماء، والمساقاة كالمضاربة، وفي مسألتنا لا يمكن ذلك؛ لأن النماء الحاصل في الغنم لا يقف حصوله على عمله فيها، فلم يمكن إلحاقه بذلك.
وإن استأجره على رعايتها مدة معلومة بنصفها أو جزء معلوم منها صح؛ لأن العمل والأجر والمدة معلوم فصح، كما لو جعل الأجر دراهم، ويكون النماء الحاصل بينهما بحكم الملك؛ لأنه ملك الجزء المجعول له منها في الحال، فيكون له نماؤه، كما لو اشتراه.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

    29/شوال/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب