021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اسلامی ریاست میں انکم ٹیکس کا تصور، اور ٹیکسز کو زکوۃ سمجھنے کا حکم
76999زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

کیا اسلامی ریاست میں انکم ٹیکس کا کوئی تصور ہے؟ پاکستان میں ہمیں دوہرے ٹیکسوں کا سامنا ہے۔ ہم سے دو ذریعے سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، یعنی تنخواہ سے انکم ٹیکس، اور پھر جو چیز ہم خریدتے ہیں اس پر جنرل سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ انکم ٹیکس تو چلیں ٹھیک ہے، میں کما رہا رہوں تو حکومت کو خرچے کے لیے پیسے چاہیے ہوتے ہیں، کم یا زیادہ الگ بات ہے۔ لیکن  انکم ٹیکس کے علاوہ مختلف ایڈیشنل ٹیکسز اور سر چارجز ہوتے ہیں جو یوٹیلٹی بلز میں شامل کر دیے جاتے ہیں، یوٹیلیٹی بلز میں ایسی چیزوں کے بہت زیادہ چارجز ہوتے ہیں جنہیں ہم نے استعمال نہیں کیا ہوتا، نہ اس کے بالمقابل ہم نے کوئی سروس حاصل کی ہوتی ہے، مثلا فیول ایڈجسٹمنٹ سر چارج، یعنی آپ نے بجلی استعمال نہیں کی، لیکن بجلی کہیں چوری ہو، یا تاروں وغیرہ کی وجہ سے بجلی کا نقصان ہو تو اس کا بل بھی ہم سے وصول کرتے ہیں، حالانکہ وہ بجلی ہم نے استعمال نہیں کی ہوتی۔ یوٹیلیٹی بلز خاص طور پر الیکٹرسٹی بل میں وہ سود بھی ہوتا ہے جو گردشی قرض کے بدلے ادا کیا جاتا ہے۔

 میرا سادہ سا سوال ہے کہ ریاست سماجی معیشت نہیں ہے، اور زبردست ٹیکس لگانے اور مہنگائی کی وجہ سے بچت کے لیے کچھ نہیں بچتا، تو ہم زکوٰۃ کیسے ادا کریں گے؟ مہنگائی نے پچھلی بچت ختم کر دی ہے، اجناس کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، لیکن پاکستان میں مہنگائی کے ساتھ آمدنی نہیں بڑھی۔ ٹیکسز کے بدلے ہمیں حکومت کی طرف سے کوئی ٹھوس چیز نہیں ملتی۔  کیا ہم یوٹیلیٹی بلوں میں 'انکم ٹیکس' یا کم از کم ان ٹیکسز اور چارجز کو زکوٰۃ سمجھ سکتے ہیں جو کہ یوٹیلیٹی چارجز سے زیادہ ہیں؟ اگر نہیں، تو براہ کرم رہنمائی کریں کہ کیا جو چوری ہورہی ہے، یا جو چیز ہم نے نہ کی ہو، ان کی مد میں ہم سے ٹیکس اور سرچارج لینا جائز ہے؟  اور یوٹیلیٹی بلز میں شامل سود کا عنصر ہم سے وصول کیا جانا درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی مملکت کے انتظامی امور چلانے، اور شہریوں کو مختلف سہولیات مہیا کرنے کے لیے اگر حکومت ٹیکس مقرر کرے تو فی نفسہ اس کی گنجائش ہے۔ لیکن حکومت پر لازم ہے کہ ٹیکس بقدرِ ضرورت لے، اور اس کی شرح منصفانہ رکھے، ظالمانہ ٹیکسز لگانا حکومت کے لیے ہرگز جائز نہیں۔ ایسی چیزوں کے نام پر پیسے لینا جو صارفین نے استعمال ہی نہ کی ہوں، یہ بھی ظالمانہ ٹیکس میں داخل ہے۔ پھر ٹیکس وصول کرنے کے بعد اسے مقررہ مصارف میں دیانت داری سے خرچ کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے، اس میں کسی بھی قسم کی کوتاہی اور کرپشن حرام ہے۔ ٹیکس کی رقم کو آئین وقانون سے ہٹ کر حکومت اور با اثر افراد، یا اداروں کے ذاتی مقاصد اور عیاشیوں میں لگانا جائز نہیں، سخت حرام ہے۔  

لیکن اس سب کے باوجود انکم ٹیکس، یا ایڈیشنل سر چارجز کو زکوۃ سمجھنا درست نہیں، ان کی ادائیگی سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔ کیونکہ زکوۃ کوئی سرکاری محصول نہیں، بلکہ عبادت اور شریعت کی طرف سے مقرر کردہ ایسا مالی فریضہ ہے جو فقراء اور مساکین کو دینا لازم ہے، انہیں مملکت کے انتظامی امور میں لگانا جائز نہیں۔

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ زکوۃ کہاں سے ادا کریں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ شریعت نے زکوۃ ہر کسی پر فرض نہیں کی، بلکہ صرف صاحبِ استطاعت یعنی صاحبِ نصاب افراد پر لازم کی ہے، اور وہ بھی قابلِ زکوۃ اموال کا صرف ڈھائی فیصد، جس کی ادائیگی کوئی مشکل امر نہیں۔ لہٰذا صاحبِ نصاب افراد وجوبِ زکوۃ کی دیگر شرائط پائے جانے کی صورت میں درست نیت کے ساتھ کھلے دل سے زکوۃ ادا کریں، ان شاء اللہ اس سے ان کے مال اور کاروبار میں برکت پیدا ہوگی، کمی نہیں آئے گی۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:-

{وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ } [الروم: 39].

ترجمہ:

اور یہ جو تم سود دیتے ہو تاکہ وہ لوگوں کے مال میں شامل ہوکر بڑھ جائے تو وہ اللہ کے  نزدیک بڑھتا نہیں ہے، اور جو زکوۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے

 دیتے ہو تو جو لوگ بھی ایسا کرتے ہیں وہ ہیں جو (اپنے مال کو) کئی گنا بڑھا لیتے ہیں۔

(آسان ترجمۂ قرآن، ص: 860)

 

حوالہ جات
القرآن الکریم:
{خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ} [التوبة: 103].
المبسوط للسرخسي (23/ 310):
وعلى السلطان كراء هذا النهر الأعظم إن احتاج إلى الكراء؛ لأن ذلك من حاجة عامة المسلمين، ومال بيت المال معد لذلك؛ فإنه مال المسلمين أعد للصرف إلى مصالحهم. ألا ترى: أن مال القناطر والجسور والرباطات على الإمام من مال بيت المال، فكذا كراء هذا النهر الأعظم، وكذلك إصلاح مسناته إن خاف منه غرقا. فإن لم يكن في بيت المال مال فله أن يجبر المسلمين على ذلك ويحرجهم؛ لأن المنفعة فيه للعامة ففي تركه ضرر عام، والإمام نصب ناظرا، فيثبت له ولاية الإجبار فيما كان الضرر فيه عاما؛ لأن العامة قل ماينفقون على ذلك من غير إجبار، وفي نظيره قال عمر رضي الله عنه: لو تركتم لبعتم أولادكم.
الاعتصام للشاطبي (1/ 410):
إنا إذا قررنا إماماً مطاعاً مفتقراً إلى تكثير الجنود لسد الثغور وحماية الملك المتسع الأقطار ، وخلا بيت المال، وارتفعت حاجات الجند إلى ما لا يكفيهم، فللإمام - إذا كان عدلًا - أن يوظف على الأغنياء ما يراه كافياً لهم في الحال إلى أن يظهر مال بيت المال، ثم إليه النظر في توظيف ذلك على الغلات والثمار وغير ذلك؛ كيلا يؤدي تخصيص الناس به إلى إيحاش القلوب، وذلك يقع قليلاً من كثير بحيث لا يحجف بأحد و يحصل الغرض المقصود. وإنما لم ينقل مثل هذا عن الأولين؛ لاتساع مال بيت المال في زمانهم بخلاف زماننا؛ فإن القضية فيه أحرى، ووجه المصلحة هنا ظاهر؛ فإنه لو لم يفعل الإمام ذلك النظام بطلت شوكة الإمام، وصارت ديارنا عرضة لاستيلاء الكفار .
رد المحتار (2/ 290):
 قلت: وشمل ذلك ما يأخذه المكاس؛ لأنه وإن كان في الأصل هو العاشر الذي ينصبه الإمام، لكن اليوم لا ينصب لأخذ الصدقات، بل لسلب أموال الناس ظلما بدون حماية، فلا تسقط الزكاة بأخذه، كما صرح به في البزازية.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

29/شوال/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب