021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وصیت پر عمل سے پہلے ترکہ کی تقسیم اور اس کی تلافی کا طریقہ
77111وصیت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

میرے دادا جی نے وصیت کی تھی کہ میرے مرنے کے بعد میری جائیداد میں تیسرا حصہ میرے لیے صدقہ کرنا ہے۔ ان کی وفات کے وقت دو مارکیٹیں تھیں اور 25 کنال زمین جس میں سے 5 کنال الگ اور 20 کنال الگ تھی۔  مارکیٹوں سے کرایہ آتا تھا، اور ایڈوانس کی رقم بھی تھی جو دکان دار کو دکان خالی کرنے پر واپس دی جاتی ہے، اور نئے دکان دار سے لی جاتی ہے۔ زمینیں کلنگ پر دی جاتی تھیں، یعنی ایک سال کے لیے کسی کو دے دی جاتیں اور وہ فی کنال کے حساب سے پورے سال کا معاوضہ دے کر فصل لگاتا۔  

دادا جی کی وفات کے بعد ان کی اولاد نے فیصلہ کیا کہ ایک مارکیٹ کو گراکر پلازہ بنایا جائے، اس کے لیے دکان داروں سے ایڈوانسز لیے گئے۔ پلازہ بننے کے بعد جو کرایہ آتا، اس میں سے آدھا ورثا میں تقسیم ہوتا، اور آدھا ایڈوانسز کی واپسی میں استعمال کیا جاتا۔ دوسری مارکیٹ کا دوسرا پورشن بھی اسی طرح ایڈوانسز لے کر بنوایا گیا، اور پھر ان کی واپس ادائیگی کی جاتی رہی۔ 5 کنال کی زمین اس سال تمام ورثا میں بذریعہ قرعہ اندازی تقسیم کردی گئی۔

اب اس سے متعلق مندرجہ ذیل سوالات ہیں:-

(1)۔۔۔ دادا جی 2014 میں فوت ہوئے تھے، ان کی وصیت پر کبھی عمل نہیں ہوا۔ اب اس کے لیے کیا کرنا ہوگا ؟ کیا گزشتہ سالوں کے حاصل شدہ کرایہ وغیرہ کے حساب سے تیسرا حصہ نکالنا ہوگا ؟

(2)۔۔۔ پانچ کنال کی جو زمین تقسیم ہوچکی ہے، اس میں وصیت پر عمل کیسے ہوگا ؟ یعنی زمین کا ٹکڑا دینا ہوگا یا اس کی قیمت لگا کر قیمت کا تیسرا حصہ بھی دے سکتے ہیں ؟

(3)۔۔۔ جو مشترکہ کرایے ملے، اس میں اگر کوئی وارث اب اپنے طور پر وصیت پوری کرنا چاہے تو کیسے کرے گا ؟

(4)۔۔۔ اگر مشترکہ جائیداد یعنی پلازہ یا زمین بیچی جائے تو رقم کا تیسرا حصہ دینا ہوگا یا کوئی اور صورت ہوگی ؟ 

پچھلے دو ماہ سے وصیت کے مطابق تیسرا حصہ نکالا گیا تو ورثا کی طرف سےمندرجہ ذیل سوالات اٹھے:

(5)۔۔۔ جس مارکیٹ کی جگہ ایڈوانسز (قرض) کی رقم سے پلازہ بنایا گیا، اور جس مارکیٹ کے اوپر ایک پورشن ایڈوانس (قرض) کی رقم سے بنایا گیا ہے، اور وہ رقم ساتھ ساتھ واپس کی جارہی ہے، تو اب جب وصیت پر عمل کرتے ہوئے تیسرا حصہ نکالا جائے گا تو ٹوٹل میں سے ایڈوانسز اور مینٹیننس کا خرچ نکال کر پھر تیسرا حصہ نکالا جائے گا، یا پہلے تین حصے کر کے تیسرا حصہ بطورِ وصیت نکالا جائے گا، پھر باقی دو حصوں میں سے ایڈوانسز اور دیگر اخراجات نکالے جائیں گے ؟  

تنقیح: سائل نے بتایا کہ ہر مہینے کا جو کرایہ آتا تھا، اس میں سے مینٹیننس کی رقم نکال کر ادا کردی جاتی تھی، باقی کرایہ ورثا میں تقسیم ہوتا۔ مینٹیننس کی ضرورت کسی مہینے نئی اور پرانی دونوں تعمیرات میں پیش آتی، اور کسی مہینے صرف نئی تعمیرات یا صرف پرانی تعمیرات میں، ہم تینوں صورتوں میں اس کی رقم مجموعی کرایہ سے نکالتے تھے۔  

(6۔۔۔ اگر ہم ابھی مارکیٹ کی قیمت لگائیں اور اس کا تیسرا حصہ بطورِ وصیت صدقہ کردیا جائے، تو کیا پھر پوری مارکیٹ ورثا کی ہوجائے گی؟ اور پھر کرایہ سے تیسرا حصہ نہیں نکالا جائے گا ؟

(7)۔۔۔ وصیت کا یہ تیسرا حصہ ورثا میں سے کسی ایک، یا ایک سے زیادہ یا سارے ورثا کو دی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ اگر مالی حالات ٹھیک نہ ہوں، اور ضرورت مند ہوں۔

تنقیح: سائل نے بتایا کہ ورثا میں چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، جن میں سے کوئی مستحقِ زکوۃ نہیں۔

(8)۔۔۔ پلازہ بنانے کے بعد سب ورثا مقروض ہوچکے ہیں تو کیا وصیت والا حصہ قرض اتارنے میں استعمال ہوسکتا ہے؟ یا ایسی کوئی صورت نکل سکتی ہے ؟

(9)۔۔۔ دادا جی نے ایک مسجد بنائی تھی، پوری عمر اس کے اخراجات اور تعمیری کام کا خرچ اٹھایا۔ کیا وصیت کا یہ حصہ اس مسجد میں لگایا جاسکتا ہے ؟

تنقیح: سائل نے بتایا کہ دادا جی نے کوئی خاص وصیت نہیں کی تھی، بس یہ کہا تھا کہ تیسرا حصہ میرے لیے صدقہ کرنا ہے۔

(10)۔۔۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کرایہ جات ورثا میں تقسیم کردیے جائیں، اور ہر کوئی اس میں سے تیسرا  حصہ نکال کر صدقہ کرے؟ یا پھر تیسرا حصہ تقسیم سے پہلے الگ کرنا لازم ہے ؟  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میت کے انتقال کے بعد اس کے ترکہ سے چار حقوق متعلق ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے اس کی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالے جائیں، بشرطیکہ یہ اخراجات کسی نے بطورِ احسان نہ اٹھائے ہوں، دوسرے نمبر پر قرضوں کی ادائیگی کی جائے گی، تیسرے نمبر اگر میت نے وصیت کی ہو تو اس وصیت کو پورا کرنا، ان تینوں حقوق کی ادائیگی کے بعد پھر چوتھے نمبر ورثا کو حصہ دینے کی باری آتی ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں وصیت پوری کرنے میں بلا وجہ کئی سال تاخیر کرنا جائز نہیں تھا، تمام ورثا پر لازم ہے کہ اس کوتاہی پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں:-

(1)۔۔۔  جی ہاں، دادا صاحب مرحوم کے ترکہ کی زمینوں سے جو کرایہ پچھلے سالوں میں آتا رہا، اس سب کا حساب کر کے تیسرا حصہ ان کی وصیت کے طور پر صدقہ کرنا لازم ہے۔ جہاں تک مارکیٹوں کا تعلق ہے تو جب تک ان کی مارکیٹوں میں کوئی نیا کام نہیں ہوا تھا، اس وقت تک وصول شدہ تمام کرایہ کا تیسرا حصہ صدقہ کرنا لازم ہے۔ البتہ مارکیٹوں کی تعمیرِ نو کے بعد ان کے کرایہ میں نئی تعمیر کے مقابلے میں آنے والا کرایہ سے تیسرا حصہ نکالنا لازم نہیں ہوگا، زمین اور سابقہ عمارت کے حساب سے جو کرایہ بنتا ہو، اس کا تیسرا حصہ نکالنا لازم ہوگا۔

اسی طرح مارکیٹوں میں نئی تعمیرات کے لیے جو ایڈوانس رقم لی گئی تھی، اور پھر ایڈوانسز کی ادائیگی ان کے کرایوں سے کی جاتی رہی، تو ایڈوانسز کی واپسی میں دی گئی کرایہ کی تمام رقوم کا حساب لگایا جائے گا، اس میں زمین اور دادا سے ملنے والی تعمیر کے بدلے میں آنے والے کرایہ کا تیسرا حصہ صدقہ کرنا لازم ہوگا۔ 

(2)۔۔۔ دونوں صورتیں درست ہیں، جس صورت میں آسانی ہو اس پر عمل کر سکتے ہیں۔

(3)۔۔۔ اس وارث کو کرایہ میں سے جتنی رقم ملی، اس کا تیسرا حصہ صدقہ کرے گا۔

(4)۔۔۔ ترکہ کی جو بھی چیز بیچی جائے گی، اس کی قیمت کا تیسرا حصہ صدقہ کرنا لازم ہوگا۔ البتہ دادا صاحب کی وفات کے بعد:

  • جس مارکیٹ کے اوپر دوسرا پورشن بنایا گیا ہے، اس مارکیٹ کی فروخت کے وقت ملنے والی قیمت کو نئی تعمیر، زمین اور دادا صاحب سے ملی ہوئی عمارت پر تقسیم کیا جائے گا، تقسیم کے بعد نئی تعمیرات کے بدلے میں آنے والی قیمت کا تیسرا حصہ صدقہ کرنا لازم نہیں ہوگا؛ کیونکہ وہ تعمیر دادا مرحوم کے ترکہ میں شامل نہیں تھیں، بلکہ صرف زمین اور پرانی عمارت کے مقابلے میں آنے والی قیمت کا تیسرا حصہ بطورِ وصیت نکالا جائے گا۔
  • اور جس مارکیٹ کو مکمل گرا کر از سرِ نو تعمیر کیا گیا تھا،  اس کی پرانی عمارت جس وقت گرائی جارہی تھی، اس کی اس وقت کی قیمت لگا کر اس کا تیسرا حصہ بطورِ وصیت نکالا جائے گا۔ باقی اس مارکیٹ کی نئی تعمیر اور زمین کو بیچنے کی صورت میں ملنے والی قیمت کو زمین اور نئی تعمیر پر تقسیم کر کے زمین کے بدلے میں آنے والی رقم کا تیسرا حصہ صدقہ کرنا لازم ہوگا۔ 

(5)۔۔۔ ایڈوانسز اور نئی تعمیرات کے مینٹیننس کے اخراجات کو وصیت کے تیسرے حصے سے منہا نہیں کیا جائے گا، البتہ پرانی تعمیرات میں اگر مینٹیننس کی ضرورت پیش آئے تو اس کے اخراجات کو وصیت کے تیسرے حصے سے منہا کرنا درست ہوگا۔

لہٰذا جو کرایہ حاصل ہو، اس کو زمین، پرانی تعمیرات، اور نئی تعمیرات پر تقسیم کر کے زمین اور پرانی تعمیرات کے مقابلے میں آنے والے کرایہ کا تیسرا حصہ بطورِ وصیت ادا کیا جائے گا، اور اگر پرانی تعمیر میں مینٹیننس کا کوئی کام ہوا ہو تو وہ بھی اس سے منہا ہوگا۔ زمین اور پرانی تعمیرات کے کرایہ سے وصیت کا تیسرا حصہ نکالنے کے بعد بچ جانے والے باقی دو حصوں اور نئی تعمیرات کے مقابلے میں آنے والاکرایہ ورثا میں تقسیم ہوگا، اور اسی میں سے ایڈوانسز اور نئی تعمیر کی مینٹیننس کے اخراجات کی ادائیگی ہوگی۔

ماضی میں جو ایڈوانسز مجموعی کرایہ سے ادا کیے گئے ہیں، ان میں وصیت کے تیسرے حصے کے  کرایہ کا حساب نکال کر اسے بطورِ وصیت صدقہ کرنا ضروری ہوگا، جیسا کہ جواب (1) میں گزر چکا۔ اسی طرح اگر صرف نئی تعمیرات کے مینٹیننس کے اخراجات مجموعی کرایہ سے ادا کیے گئے ہوں تو اس میں بھی وصیت کے حصے کے بقدر کرایہ کی واپسی لازم ہوگی۔

 (6)۔۔۔ جی، ترکہ کی  جس جائیداد وغیرہ کی قیمت کا تیسرا حصہ بطورِ وصیت ادا کیا جائے گا، وہ مکمل ورثا کی ہوجائے گی، لہٰذا پورا کرایہ ورثا کو ملے گا، پھر اس میں وصیت جاری نہیں ہوگی۔  

(7)۔۔۔ صورتِ مسئولہ میں وصیت کا یہ حصہ پورا یا بعض، ورثا میں سے کسی کو نہیں دیا جاسکتا۔  

(8)۔۔۔ نہیں، ورثا وصیت کی یہ رقم اپنے قرضوں کی ادائیگی میں نہیں دے سکتے۔   

(9)۔۔۔ جب دادا مرحوم نے مطلق صدقہ کرنے کی وصیت کی ہے تو ان کے ترکہ کا تیسرا حصہ فقراء اور مساکین کو دینے کے ساتھ ساتھ مسجد میں بھی لگایا جاسکتا ہے۔

(10)۔۔۔ دونوں صورتیں درست ہیں، البتہ تقسیم سے پہلے وصیت کا حصہ نکالنا زیادہ بہتر ہے۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (6/ 106):
رجل قال: هذه البقرة لفلان، قال أبو نصر رحمه الله تعالى: ليس للورثة أن يعطوه قيمتها، ولو قال: هي للمساكين جاز لهم أن يتصدقوا بقيمتها، وبه أخذ الفقيه أبو الليث رحمه الله تعالى، كذا في فتاوى قاضي خان.
  الدر المختار (6/ 698):
( الوصية المطلقة ) كقوله هذا القدر من مالي أو ثلث مالي وصية ( لا تحل للغني ) لأنها صدقة، وهي على الغني حرام……….. الخ
فروع : أوصى بثلث ماله للصلوات جاز للوصي صرفه للورثة لو محتاجين، يعني لغير قرابة الولاد ممن يجوز صرف الكفارة إليهم، بخلاف مطلق الوصية للمساكين؛ فإنها تجوز لكل ورثته ولأحدهم، يعني لو محتاجين حاضرين بالغين راضين، فلو منهم صغير أو غائب أو حاضر غير راض لم يجز.
رد المحتار (6/ 698):
 قوله ( الوصية المطلقة ) أي التي لم يذكر غني ولا فقير فيها، والعامة ما ذكرا فيها ط.   قوله ( وهي على الغني حرام ) ولا يمكن جعلها هبة له بعد موت الموصي، بخلاف الصدقة عليه حالا؛ فإنها تجعل هبة لما قالوا : إن الصدقة على الغني هبة، والهبة للفقير صدقة، ط…….  قوله (يعني لغير قرابة الولاد) أي بغير الأصول والفروع، وهذا التقييد ذكره في القنية أخذا مما قاله أبو القاسم: لو أوصى أن يعطى عن كفارة صلواته لولد ولده وهو غير وارث فإنه يعطي كما أمر ولا يجزيه عن الكفارة. قوله (ممن يجوز صرف الكفارة إليهم) بأن يكونوا مسلمين محتاجين ط. قوله (ولأحدهم) أي ولا يشترط الجمع؛ لأن أل الجنسية أبطلت معنى الجمعية ط. قوله (فلو منهم صغير) الأولى زيادة  أو غير محتاج  لتتم المحترزات ط. قوله (لم يجز) أي لأنه من قبيل الوصية للوارث، فتحتاج إلى إجازة جميع الورثة، ولم توجد من الغائب وغير الراضي، ولم تصح من الصغير، وهل هذه الشروط للقسم الثاني أو للقسمين أي كفارة الصلاة والتبرع ؟ يحرر، رحمتي.
حاشیة الطحطاوي علی الدر المختار (4/ 337):
(قوله جاز للوصي صرفه للورثة) أي وجاز له صرفه لغیرهم، وإنما نص علی المتوهم (قوله یعني لغیر قرابة الأولاد) أما لهم فلا یجوز عنها ولو عینه الموصی، فقد نقل في القنیة عن أبي القاسم: أوصی أن یعطی عن کفارات صلواته لولد ولده وهو غیر وارث؛ فإنه یعطی کما أمر، ولایجزیه عن الکفارة، أفاده المصنف (قوله ممن یجوز صرف الکفارة إلیهم) بأن یکونوا مسلمین محتاجین.
 (قوله بخلاف مطلق الوصیة للمساکین) روی هشام عن محمد: أوصی بثلث ماله للمساکین فاحتاج ورثته وهم کبار حضور، فإن أجمعوا أن یجعلوه لأنفسهم، أو احتاج بعضهم فأجمعوا أن یعطوه له فهو جائز، وإن کان في الورثة صغیر أو غائب أوحاضر غیر راض لایجوز، انتهیٰ، کأنها بمنزلة الوصیة للوارث (قوله ولأحدهم) أي ولایشترط الجمع؛ لأن ال الجنسیة أبطلت معنی الجمعیة (قوله فلو منهم صغیر) الأولى زيادة " أو غير محتاج " لتتم المحترزات.     
الفتاوى الهندية (6/ 97):
ولو أوصى بالثلث في وجوه الخير يصرف إلى القنطرة أو بناء المسجد أو طلبة العلم، كذا في التتارخانية.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

    9/ذو القعدۃ/1443ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب