021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاقِ صریح دے کر بیوی کو اپنے اوپر حرام کرنے کا حکم
77064طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

ایک شخص نے عرضی نویس سے طلاق نامہ لکھوایا اور اس پر دستخط کیے،جس میں یہ تحریر تھا کہ "میں نے اپنی مدخولہ بیوی کو لفظ طلاق کہہ کر اپنے تن من پر حرام حرام کردیا ہے اور طلاق دے دی ہے"۔ سوال یہ ہے  کہ درج بالا الفاظ سے کتنی طلاقیں واقع ہوئیں؟

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ مذکورہ شخص نے اس طلاق نامہ کے علاوہ اپنی بیوی کو کوئی طلاق نہیں دی ہے۔  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب  مذکورہ شخص نے سوال میں درج الفاظ پر مشتمل طلاق نامہ بنواکر اس پر دستخط کردیے ہیں تو طلاق نامہ میں لکھے ہوئےان الفاظ "میں نے اپنی مدخولہ بیوی کو لفظ طلاق کہہ کر اپنے تن من پر حرام حرام کردیا ہے " سے اس کی بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی، اس جملے کے بعد لکھے ہوئے جملہ " اور طلاق دے دی ہے" سے اگر مقصد نئی طلاق دینا نہیں تھا تو اس سے دوسری طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اس صورت میں حکم یہ ہے کہ شوہر رجوع نہیں کرسکتا، البتہ اگر یہ دونوں باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو گواہان کی موجودگی میں نئے مہر پر دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں، لیکن دوبارہ نکاح کے بعد شوہر کو صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا، یعنی اگر دوبارہ نکاح کے بعد وہ دو طلاقیں دے گا تو بیوی اس پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی، اور پھر تحلیل کے بغیر ان دونوں کا نکاح بھی نہ ہوسکے گا۔ اس لیے اگر یہ دونوں نکاح پر راضی ہوتے ہیں تو اس کے بعد طلاق کے معاملے میں سخت احتیاط لازم ہوگی۔

لیکن اگر دوسرے جملے سے مستقل طلاق دینا مقصود تھا تو پھر دو بائن طلاقیں واقع ہوئی ہیں، اور دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں اس شخص کو صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا۔  

حوالہ جات
رد المحتار (3/ 246):
ولو استكتب من آخر كتابًا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه أو قال للرجل ابعث به إليها أو قال له اكتب نسخة وابعث بها إليها، وإن لم يقر أنه كتابه ولم تقم بينة، لكنه وصف الأمر على وجهه لا تطلق قضاء ولا ديانة، وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه، آه ملخصًا.    
الدر المختار (3/ 78-276):
( و ) يقع ( ب ) قوله ( أنت طالق بائن أو البتة ).…. ( أو أفحش الطلاق أو طلاق الشيطان أو البدعة أو أشر الطلاق أو كالجبل أو كألف أو ملء البيت أو تطليقة شديدة أو طويلة أو عريضة
أو أسوأه أو أشده أو أخبثه ) أو أخشنه ( أو أكبره أو أعرضه أو أطوله أو أغلظه أو أعظمه، واحدة بائنة ) في الكل؛ لأنه وصف الطلاق بما يحتمله ( إن لم ينو ثلاثا ) في الحرة وثنتين في الأمة فيصح لما مر،كما لو نوى بطالق واحدة وبنحو بائن أخرى فيقع ثنتان بائنتان، ولو عطف وقال: وبائن أو ثم بائن ولم ينو شيئا فرجعية، ولو بالفاء فبائنة، ذخيرة، ( كما ) يقع البائن ( لو قال أنت طالق طلقة تملكي بها نفسك ) لأنها لا تملك نفسها إلا بالبائن.
رد المحتار (3/ 78-276):
قوله ( ويقع الخ ) شروع في بيان وقوع البائن بوصف الطلاق بما ينبىء عن الشدة والزيادة،   نهر،  وفاعل يقع قوله الآتي واحدة بائنة، قوله ( البتة ) مصدر بت أمره إذا قطع به وجزم  نهر. ………قوله ( ولو عطف الخ ) محترز تقييد المصنف المسألة بدون عطف،  قوله ( فرجعية ) أي فهي طالق طلقة رجعية، ذخيرة.  قوله ( ولو بالفاء فبائنة ) أي إذا لم ينو شيئا كما أفاده في الذخيرة بقوله ولو عطف بالفاء وباقي المسألة بحالها فهي طالق طلقة بائنة اه . ولعل وجه الفرق أن الفاء للتعقيب بلا مهلة والطلاق الذي يعقبه البينونة لا يكون إلا بائنا، أما الواو فلا تقتضي التعقيب بل تصلح له وللتراخي الذي هو معنى ثم، والطلاق الذي تتراخى عنه البينونة لا يلزم كونه بائنا فيكون قوله وبائن لغوا، ولا تحمل الواو على التعقيب؛ لأنه عند الاحتمال يراد الأدنى وهو الرجعي هنا، كما لا يراد تكرير الإيقاع لعدم النية.
 وانظر لم لم يتعين تكرير الإيقاع مع وجود مذاكرة الطلاق؟ فإن الأصل في العطف المغايرة، فكان ينبغي وقوع بائنتين مع الواو وثم، ومفهوم التقييد بعدم النية أنه لو نوى تكرير الإيقاع مع الحروف الثلاثة، أو نوى بالبائن الثلاث أنه يقع ما نوى.  

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

9/ذو القعدۃ/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب