021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترکہ مکان میں تقسیم کی صورت
77170تقسیم جائیداد کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

لیاقت آباد میں ہمارے دادا کا گھر ہے،میرے دادا نے اپنی زندگی میں اپنی وراثت اور اپنی دولت اپنے بچوں میں تقسیم کر دی تھی۔ ان کی وفات کے بعد میرے والد نے لیاقت آباد کے اس مکان کی قیمت کے مطابق اپنے تمام بہن بھائیوں کو رقم دے دی جبکہ میرے دادا نے یہ مکان پہلے ہی میرے نام وراثت میں دے رکھا ہے۔ میرے دادا نے میرے ایک چچا جناب عبدالرزاق کو لانڈھی میں ایک گھر دیا تھا جو انہوں نے میرے دادا کی وفات کے کئی سال بعد بیچ دیا اور اورنگی ٹاؤن میں ایک گھر بنایا، لیکن وہ اس گھر میں آباد نہ ہوسکے اور اس طرح میرے والد نے انہیں اپنے ساتھ لیاقت آباد والے گھر میں رہنے کی پیشکش کی۔ میرے چچا نے اپنا اورنگی ٹاؤن کا گھر بیچ دیا اور ہمارے لیاقت آباد والے گھر کو دوبارہ تعمیر کیا،چونکہ یہ پرانی تعمیر تھی اس لیے انہوں نے اس گھر پر پیسہ لگا کر اسے ٹھیک سے بنایا، لیکن اس خرچ کے حوالے سے میرے والد اور چچا کے درمیان کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا اور نہ ہی ان کے درمیان اس مکان کی ملکیت اور وراثت کے حوالے سے کوئی زبانی معاہدہ ہوا۔ چچا 2004 میں ہمارے ساتھ رہنے آئے اور ہمیں اس وقت اس گھر کی قیمت معلوم نہیں تھی اور نہ ہی کسی نے پوچھا تھا۔ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ انہوں نے اس گھر پر کتنی رقم خرچ کی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق، انہوں نے اس وقت تقریباً PKR 200,000 خرچ کیے تھے۔ میرے والد کا انتقال 2012 میں ہوا اور میرے چچا کا انتقال 2020 میں ہوا۔ اب میرے چچا کا خاندان اس گھر میں ہمارے ساتھ رہتا ہے جس میں میری آنٹی اور ان کی ایک بیٹی بھی شامل ہے۔ ہم اب اس گھر کو بیچنا چاہتے ہیں۔ اور ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا اس گھر میں ہماری آنٹی اور ان کی بیٹی کو کوئی میراث ملے گا؟ اگر ہاں، تو ہمیں اسے کتنے فیصد کے ساتھ تقسیم کرنے کی ضرورت ہے؟ برائے مہربانی ہماری رہنمائی فرمائیں۔ شکریہ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مکان کی قیمت فروخت میں سےاصل گھر اور اس کے بنیادی  ذاتی تعمیر کی مالیت تو آپ کے والدکے ترکہ میں شامل ہوکران کے ورثہ میں تقسیم ہوگی اور اس سے زائد جو تعمیر خالص چچا کے ذاتی رقم سےانکے ذاتی مالکانہ تعمیر کے طور پر ہوئی محتاط اندازے کے مطابق اس کی مالیت کے بقدر رقم چچا کے ورثہ میں تقسیم ہوگی۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۸رجب۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب