021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دادا کے ترکے میں سے پوتیوں کا حصہ
77182میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

محترم جناب مفتی صاحب!

عرض یہ ہے کہ میرے شوہر کے دوبھائی اور ایک بہن ہے، تینوں شادی شدہ ہیں، اور تینوں کی اولاد ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل میں ذکر کی جاتی ہے:

1: بڑے بھائی محمد عارف۔ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔

2: منجھلے بھائی محمد طارق۔ ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔

3: چھوٹے بھائی محمد راشد۔ ان کی صرف دو بیٹیاں ہیں۔

4:چھوٹی بہن۔ ان کی صرف دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔

ہم سب 240 گز کے مکان میں ایک ساتھ رہتے تھے، میری شادی سے پہلے میرے سسر انتقال کرچکے تھے، یہ مکان میرے شوہر کے دو بھائی  محمد عارف اور محمد طارق کے نام پہ تھا، چونکہ اس وقت میرے شوہر کی عمر کم تھی، ان کے پاس شناختی کارڈ نہیں تھا اس لئے مکان دیگر بھائیوں کی طرح ان کے نام نہ کیا جاسکا،میری ساس کی حیات میں محمد عارف، میرے شوہر محمد راشد اور ان کی بہن کا انتقال ہوچکا تھا، میری ساس کے انتقال کے بعد محمد طارق کا کہنا تھا کہ اس مکان میں میری بیٹیوں کا حصہ نہیں ہے، اب محمد طارق بھی انتقال کرچکے ہیں۔

لہذا آپ حضرات اس گھر میں تمام ورثہ کے شرعی حصص کی وضاحت فرمادیں۔

سائلہ سے تنقیح کے بعد درج ذیل بات معلوم ہوئی ہے:

1:سب سے پہلے  ان کے سسر کا انتقال ہوا تھا، اس کے بعد ان کی بیٹی، پھر  محمدعارف، پھر محمدراشد، اس کے بعد سائلہ کی ساس کا اور سب سے آخر میں درمیانے بیٹے محمد طارق کا انتقال ہوا ہے۔

2:شوہر کے سب بھائیوں کی بیوائیں اس وقت حیات ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

والد کے انتقال ہوتےہی 240گز کےمکان میں تمام ورثاء کا حق متعلق ہوچکا تھا، مکان صرف چند ورثاء کے نام کرنے  سے مکان کی ملکیت صرف ان تک محدود نہیں ہوگی، بلکہ والد  کی وفات کے وقت جتنے ورثاء زندہ تھے، خواہ وہ ورثاء اس وقت بالغ تھے یا نابالغ ، بہر صورت وہ سب اپنے شرعی حصص کے مطابق اس میں شریک ہوں گے، اس لئے مرحوم محمد طارق کا آپ کی بیٹیوں کو بغیر کسی شرعی عذر کے دادا کے ترکہ سے محروم رکھنا شرعا درست نہیں ہے۔

ذیل میں دادا کی میراث کو ان کے  ورثاء کے درمیان شرعی حصص کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے:

چونکہ صورت مسؤلہ میں سب سے پہلے دادا انتقال کرگئے ہیں، پھر یکے بعد دیگرے ان کی بیوہ،بیٹی،اور بیٹے  فوت ہوئے ہیں، اس لئے ذیل میں تمام ورثاء کے فوت ہونے کی ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے میراث تقسیم کی جاتی ہے:

1۔ دادا  نے بوقت انتقال اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ مال وجائیداد،مکان، جانور، دکان،نقد رقم،سونا چاندی،زیورات غرض ہر قسم کا چھوٹا بڑا گھریلوسازوسامان چھوڑا ہے وہ سب مرحوم کا ترکہ ہے۔ اس میں سے سب سے پہلے مرحوم کے کفن دفن کے مسنون اخراجات ادا کیے جائیں، اگر یہ اخراجات کسی نے احسان کے طور پر ادا کردیے ہوں،تو ان کے ترکے سے یہ اخراجات نہیں نکالے جائیں گے۔ پھر اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو وہ ان کے ترکے سے ادا کریں۔ اس کے بعد دیکھیں کہ اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کسی غیر وارث کے حق میں کی ہو تو بقیہ ترکہ میں سے ایک تہائی کی حد تک اس پر عمل کریں، اس کے بعد مرحوم کے کل ترکہ منقولی وغیر منقولی کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا جائے،جس میں سے ان کی بیوہ اور بیٹی کو ایک ایک حصہ دیا جائے، ہر بیٹے کو دودو حصے دیئے جائیں۔

فیصدی اعتبار سے ان کے درمیان تقسیم یوں ہوگی کہ بیوہ کو 12.5%فیصد، بیٹی کو بھی12.5% فیصد، اور ہر بیٹے کو25% فیصد دیا جائے۔

2۔ بہن کو باپ سے ملنے والا حصہ 12.5%اور جو کچھ انہوں نے چھوڑا ہے، اس کو 36 حصوں میں تقسیم کیا جائے، جس میں سے 6 حصے ان کی والدہ کو، دس دس حصے ہر بیٹے کو اور پانچ پانچ حصے ہر بیٹی کو دیا جائے۔

فیصدی اعتبار سے ان کے درمیان تقسیم یوں ہوگی کہ مرحومہ والدہ کو16.6666%فیصد، ہر بیٹے کو 27.7777%فیصد، اور ہر بیٹی کو 13.8888فیصد دیا جائے۔

3۔ محمد عارف نے انتقال کے وقت اپنے والد کی میراث سے ملنے والے حصے25%  سمیت جو کچھ چھوڑا ہے، اس میں سے سب سے پہلے جواب نمبر (1)  ایک تحت بیان کردہ حقوق یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات، قرض اور وصیت اسی ترتیب اور تفصیل کے ساتھ ادا کریں، اس کے بعد جو کچھ بچ جائے اس کو 144 حصوں میں تقسیم کیا جائے، جس میں سےان کی بیوہ کو 18 حصے، ان کے ہر بیٹے کو 34 حصے،  ہر بیٹی کو 17 حصے، اور ان کی ماں کو 24حصے دیئے جائیں۔

فیصدی اعتبار سے تقسیم یوں ہوگی کہ بیوہ کو 12.5%فیصد،ہر بیٹے کو23.6111%  فیصد،ہر بیٹی کو 11.8055%فیصد،اور ان کی والدہ کو 16.6666%فیصد دیا جائے۔

4۔ مرحوم محمد راشد کو باپ کی طرف سے ملنے والا حصہ 25%اورجو  کچھ انہوں نے چھوڑا ہے اس کو 24 حصوں میں تقسیم کیا جائے، جس میں سے بیوہ کو 3 حصے، ہر بیٹی کو آٹھ آٹھ حصے، والدہ کو 4 حصے اوراس کے بھائی محمد طارق  کو ایک حصہ دیا جائے۔

فیصدی اعتبار سے ان کے درمیان تقسیم یوں ہوگی کہ بیوہ کو12.5% فیصد، ہربیٹی کو 33.3333%فیصد، ماں کو16.6666% فیصد اور بھائی کو4.1666%فیصد دیا جائے۔

5۔ والدہ کو جو حصے  ان کے شوہر، بیٹی اور بیٹوں سے ملا ہے، وہ سب ان کے بیٹے محمد طارق کو دیا جائے کیونکہ والدہ کی وفات کے وقت ان کی اولاد میں صرف وہی زندہ تھے۔

6۔ محمد طارق کو جو کچھ ان کے والد اور والدہ کی طرف سے ملا ہے اور جو کچھ انہوں نے چھوڑا ہے ان سب کو 64 حصوں میں تقسیم کیا جائے، جس میں سے 8حصے ان کی بیوہ کو، 7 حصے ان کی ہر بیٹی کو،اور 14 حصے ہر بیٹے کو دیا جائے۔

فیصدی اعتبار سے ان کے درمیان تقسیم یوں ہوگی کہ بیوہ کو 12.5%فیصد،، ہربیٹی کو 10.9375%فیصد، ہربیٹے کو 21.875%فیصد دیا جائے۔

حوالہ جات
....

محمدنصیر

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

١٨ ذی القعده ١٤٤٣ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نصیر ولد عبد الرؤوف

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب