021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ڈراپ شپنگ کا جائز طریقہ
77270اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلملازمت کے احکام

سوال

میرا سوال ڈراپ شپنگ کے بارے میں ہے۔ میں تقریباً تین سال سے ڈراپ شپنگ کر رہا ہوں اور اب الحمد للہ گھر کا خرچہ اس سے بآسانی نکال لیتا ہوں۔ میں عام طور پر علی ایکسپریس سے چیز لے کر ایمزون پر بیچتا ہوں۔ میں چیز کا اشتہار اپنے ایمزون کے اسٹور پر لگاتا ہوں اور چیز کا آرڈر آنے پر علی ایکسپریس سے چیز بھجوا دیتا ہوں۔

کچھ دن پہلے مجھے ہماری مسجد کے امام صاحب نے یہ بتایا کہ یہ درست نہیں ہے اور دو فتوے واٹس ایپ کیے جن میں سے ایک آپ کے جامعہ کا اور دوسرا دار العلوم کراچی کا تھا۔ ان فتووں میں شرعی متبادل لکھے ہیں لیکن وہ تینوں عمل کرنے میں ناممکن جیسے ہیں۔ میں تفصیل سے بتاتا ہوں:

پہلا متبادل یہ ہے کہ میں چیز خرید کر قبضہ کر کے اس کے بعد آگے بیچوں لیکن اس میں دو مسئلے ہیں کہ ایک تو اس کے لیے کافی بڑی انویسٹمنٹ چاہیے اور دوسرا اس میں چیز چائنا سے پاکستان آنے میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے اور خرچہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ایمزون پر مجھ جیسے بے شمار سیلرز ہیں اور کمپٹیشن کی وجہ سے میں مہنگا یا تاخیر کے ساتھ سامان نہیں بیچ سکتا۔

دوسرا متبادل یہ ہے کہ سیلز مین کی طرح سپلائیر مجھے کچھ سیلری دے اور باقی میں اس سے طے کروں کہ مجھے کمیشن فیصد کے مطابق ادا کرے۔ اس کا تو بالکل امکان ہی نہیں ہے۔ سپلائیر ایسا کچھ نہیں کرتا اور نہ ہی وہ میرا محتاج ہوتا ہے کہ میری اتنی بات مانے گا۔

تیسرا متبادل یہ ہے کہ میں سپلائیر سے اپنی اجرت یا اپنا کمیشن طے کر لوں۔ یہ ممکن ہے لیکن اس میں ایک چھوٹا سا مسئلہ یہ ہے کہ میں ایک سپلائیر کی کئی چیزیں سیل کرتا ہوں۔ ہر بار اسے ای میل کرنے اور اپنا کمیشن بتانے کا وہ جواب ہی نہیں دیتا۔

آپ چونکہ اس میدان کا علم رکھتے ہیں اس لیے آپ تفصیل سے جواب دیں تو مہربانی ہوگی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ڈراپ شپنگ کا تیسرا متبادل شرعاً اجارہ ہے اور اس میں چونکہ ڈراپ شپر سپلائیر سے اس کی چیز بیچنے اور اس پر اجرت لینے کا معاہدہ کرتا ہے اور وہ اس دوران کسی اور سپلائیر کی چیز بھی بیچ سکتا ہے، لہذا اس کی حیثیت اجیر مشترک کی ہوتی ہے۔ اجارہ کے عقد میں اجرت کا اس طرح معلوم ہونا ضروری ہے کہ اس میں جہالت فاحشہ (ایسی جہالت جس کی وجہ سے عاقدین میں نزاع ہوتا ہو) نہ ہو۔ نیز اگر اجیرایک سے زیادہ لوگوں کے لیے کام کرتا ہو تو یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے نقصان کا ضمان (رسک) مستاجر (مالک) کا ہو جو اجیر کے عمل سے نہ ہوا ہو اور اس سے عمومی احتیاط کے ذریعے بچنا بھی ممکن نہ ہو۔ البتہ اگر اجیر کے عمل سے کوئی نقصان ہو یا نقصان تو قدرتی طور پر ہو لیکن اس سے عمومی احتیاط کے ذریعے بچنا ممکن ہو تو اس صورت میں اجیر نقصان کا ذمہ دار ہوگا۔

 چنانچہ سوال میں مذکور صورت میں آپ تیسرے طریقے کو اختیار کرتے ہوئے سپلائیر کو ایک ہی بار ای میل کر دیں کہ میں آپ کی تمام چیزیں ایک مخصوص حد تک نفع  یا اجرت رکھ کر بیچوں گا اور سپلائیر اس پر راضی ہو تو یہ کافی ہے۔ مثلاً آپ اسے بتا دیں کہ آپ کی تمام پراڈکٹس زیادہ سے زیادہ پچاس فیصد تک اجرت رکھ کر بیچوں گا اور وہ اسے قبول کر لے۔ اس صورت میں چونکہ زیادہ سے زیادہ مقدار معلوم ہے اور سپلائیر کے راضی ہونے کی وجہ سے اس پر نزاع کا احتمال نہیں ہے لہذا یہ جہالت یسیرہ ہے اور آپ پچاس فیصد یا اس سے کم اپنی اجرت رکھ سکتے ہیں۔ اگر پچاس فیصد سے زیادہ قیمت پر چیز فروخت کی تواضافی رقم سپلائیر کو دینی ہوگی۔

نیز ای میل میں اس بات کی صراحت بھی ضروری ہے کہ اگر سپلائیر نے سامان ڈائریکٹ کلائنٹ کو بھیجا (جیسا کہ ڈراپ شپنگ میں عرف ہے) تو راستے میں ہونے والے کسی بھی قسم کے نقصان کا ذمہ دار سپلائیر ہوگا، اور اگر آپ نے سامان پر قبضہ کر کے کلائنٹ تک پہنچایا تو قبضے کے بعد ہونے والے ایسے نقصانات کا ذمہ دار سپلائیر ہوگا جو آپ کے عمل کی وجہ سے نہ ہوئے ہوں اور ان سے عمومی احتیاط سے بچنا بھی ممکن نہ ہو۔ اور اگر نقصان آپ کے عمل کی وجہ سے ہو یا اس سے عمومی احتیاط سے بچنا ممکن ہو تو اس کی ذمہ داری آپ پر ہوگی۔ مثلاً اگر بحری راستے سے ڈلیوری کے دوران جہاز تباہ ہو جائے تو سامان کا نقصان سپلائیر کا ہوگا لیکن اگر آپ کے سامان وصول کرنے کے بعد شپنگ کمپنی تک لے جاتے ہوئے سامان بارش سے خراب ہو جائے، جب کہ عمومی احتیاط (مناسب پیکنگ، پلاسٹک چڑھانے یا شاپنگ بیگ استعال کرنے وغیرہ) سے اس سے بچا جا سکتا ہو تو اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔ سپلائیر اگر ان شرائط پر راضی ہو تو یہ کام کرنا شرعاً درست ہے۔

حوالہ جات
اعلم أن الهلاك إما بفعل الأجير أو لا، والأول إما بالتعدي أو لا. والثاني إما أن يمكن الاحتراز عنه أو لا، ففي الأول بقسميه يضمن اتفاقا. وفي ثاني الثاني لا يضمن اتفاقا وفي أوله لا يضمن عند الإمام مطلقا ويضمن عندهما مطلقا. وأفتى المتأخرون بالصلح على نصف القيمة مطلقا، وقيل إن مصلحا لا يضمن وإن غير مصلح ضمن، وإن مستورا فالصلح اهـ ح والمراد بالإطلاق في الموضعين المصلح وغيره.
مطلب يفتى بالقياس على قوله وفي البدائع: لا يضمن عنده ما هلك بغير صنعه قبل العمل أو بعده؛ لأنه أمانة في يده وهو القياس. وقالا يضمن إلا من حرق غالب أو لصوص مكابرين وهو استحسان اهـ. قال في الخيرية: فهذه أربعة أقوال كلها مصححة مفتى بها، وما أحسن التفصيل الأخير والأول قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -. وقال بعضهم: قول أبي حنيفة قول عطاء وطاوس وهما من كبار التابعين، وقولهما قول عمر وعلي وبه يفتى احتشاما لعمر وعلي صيانة لأموال الناس، والله أعلم اهـ. وفي التبيين: وبقولهما يفتى لتغير أحوال الناس، وبه يحصل صيانة أموالهم اهـ.؛ لأنه إذا علم أنه لا يضمن ربما يدعي أنه سرق أو ضاع من يده. وفي الخانية والمحيط والتتمة: الفتوى على قوله، فقد اختلف الإفتاء، وقد سمعت ما في الخيرية.
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 6/65، ط: دار الفكر)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

25/ ذو القعدہ 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب