021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مرض الوفاة میں وصیت کا حکم
77344وصیت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

میرا نام وجیہ الدین ہے۔ میرے والد صاحب تیس اپریل2010ءکو رضائے الہی سے انتقال فرما گئے تھے۔ ہم اب ان کی پراپرٹی شریعت کے مطابق بانٹنا چاہتے ہیں۔ قانونی طور پر میرے والد صاحب کے تین ورثا تھے جن میں میری والدہ، میں اور میری بہن شامل ہیں۔ میری والدہ کا والد صاحب کے انتقال کے چار سال بعد دو ہزار چودہ میں انتقال ہو گیا تھا۔ چنانچہ کورٹ نے سکسیشن سرٹیفکیٹ (Succession Certificate) کے ذریعے میرے والد صاحب کی جائیداد میرے اور میری بہن کے نام منتقل کر دی تھی۔ اس ضمن میں ہمارے چند سوالات ہیں جن کے جواب مطلوب ہیں۔

میرے والد کو جگر کی ایک خطرناک بیماری لیور سروسز(liver Cirrhosis)  کی سالوں سے تھی۔ اپریل 2010 میں ڈاکٹرز نے جواب دے دیا اور کہا کہ یہ چند ہفتوں سے زیادہ نہیں جی پائیں گے۔ اور جیسا کہ انہوں نے کہا تھا ان کی صحت دن بدن خراب ہوتی چلی گئی اور بالآخر 30 اپریل 2010 کو ان کا انتقال ہوگیا۔

ہمارے ابا کی بیماری کی ابتداء 7 اپریل 2003ء کو ہوئی۔ اس وقت ان کو پہلی بار ہاسپٹل میں ایڈمٹ کرایا گیا۔ جہاں ان کو لیور سروسز (liver cirrhosis) کی بیماری کی تشخیص ہوئی۔ اس کے بعد وہ اپنی وفات تک مختلف اوقات میں طبیعت کی خرابی کا شکار ہوتے رہے۔ معدے سے خون آنے کی وجہ سے کالے موشن، کمزوری، اور پیٹ میں درد کی وجہ سے کافی بار اسپتال میں ایڈمٹ کیا گیا۔ جہاں انڈوسکوپی کے ذریعے ان کے معدے کے زخم کا علاج کیا جاتا تھا۔

اس بیماری کی وجہ سے کبھی ان کی ذہنی کیفیت بھی خراب ہو جاتی تھی. اپنی زندگی کے آخری سال یعنی 2009 سے 2010 تک کئی بار بے ہوش ہو گئے اور ماضی کی کچھ نامناسب باتیں یاد آ جاتی تھی جن کا ذکر کر وہ ملنے جلنے والوں اور رشتہ داروں کے سامنے کر دیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بعض اوقات باتھ روم سے بغیر پجامہ کے باہر آ جاتے تھے۔ کبھی رات کے وقت تمام گھر کے دروازے کھول کر باہر نکلنے کی کوشش کرتے تھے۔

شروع میں طبعیت خرابی کا وقفہ زیادہ تھا اور اس وقت بےہوش نہیں ہوا کرتے تھے۔ بلکہ خاموش ہو جاتے تھے، زیادہ سونے لگتے تھے یا پیٹ میں درد کی وجہ سے بے چین رہتے تھے۔ مگر 19 جنوری 2009ء سے بیہوش ہونے کی ابتدا ہوئی اور دماغی کیفیت بھی خراب ہونا شروع ہوگی ۔

14یا 18 اپریل 2010ءکو ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کے الیکشن میں ووٹ ڈال کر آئے، اس کے علاوہ اسی ہاؤسنگ سوسائٹی کے آکشن کا معاملہ بھی 2009ءسے 2010ء کے درمیان حل کروایا۔

بیماری کی تشخیص سے لے کر اپنے انتقال سے چند ہفتوں پہلے تک میرے والد صاحب اپنے معاشی اور دیگر ذمہ داریاں بھی کسی نہ کسی طرح پوری کرتے رہے۔

انتقال سے تین چار مہینے پہلے ڈاکٹر نے بول دیا تھا کہ آپ چند مہینوں کے مہمان ہیں۔ گھرآ کر وہ بہت خاموش ہو گئے تھے۔ پھر مجھے کچھ زبانی نصیحتیں کیں، لیکن کوئی تحریری وصیت نہیں کی۔

فروری 2010ءمیں اسی بیماری کی وجہ سے پیٹ میں پانی بھرنا شروع ہوگیا تھا جس کو  نکلوانا شروع کیا گیا۔  پھر پھیپھڑوں میں بھی پانی بھرنے لگا اور وہ بھی نکلوانا پڑتا تھا۔ اپریل کے مہینے میں جو پھیپھڑوں سے پانی نکالا جاتا تھا اس میں ہلکا خون آتا تھا۔ اسی وقت ڈاکٹر نے بتا دیا تھا کہ یہ ایک اچھی علامت نہیں ہے۔ انتقال سے آٹھ دس دن پہلے طبیعت خراب ہوئی تو ان کو ہسپتال میں ایڈمٹ کروایا۔ ان کی حالت دیکھ کے ڈاکٹروں نے ہمیں بتایا کہ ان کی بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔ آپ ان کو ہسپتال میں رکھیں یا گھر میں اٹینڈنٹ کا انتظام کر کے رکھ لیجئے۔

ہم والد صاحب کو گھر لے آئے۔ ان کو بات کرنے میں بہت مشکل ہو رہی تھی، کیونکہ منہ میں ان کے چھالے ہو گئے تھے۔ جب ہم کوئی بھی بات پوچھ رہے تھے تو ہمیں صحیح سے جواب نہیں دے پا رہے تھے۔ ہسپتال سے آنے کے بعد ان کی ذہنی اور جسمانی کیفیت زیادہ اچھی نہ تھی۔ تکلیف کی وجہ سے زیادہ بول نہیں پا رہے تھے۔ہسپتال سے آنے کے بعد Catheter لگا ہوا تھا۔ جسے نکالنے کی کوشش کرتے تھے۔ اور ایک بار اسی کے ساتھ باتھ روم میں جاکر بیٹھ گئے تھے۔

ذہنی طور پر حاضر نہیں رہتے تھے۔ اپنے آخری دنوں میں وہ کنفیوژن کا بھی شکار رہتے تھے۔ اور اپنی بات کو صحیح طریقے سے نہیں بتا پاتے تھے۔ ہمارے چچا کے بیٹے نے والد صاحب کو اپنے کسی کام کے لئے کچھ رقم دی تھی، ہسپتال سے واپس گھر آنے کے بعد جب چچا نے ان سے اس رقم کے بارے میں پوچھا تو وہ غالباً کنفیوز ہو گئے اور نہیں بتا پارہے تھے۔ جب چاچا نے زور ڈال کے پوچھا تو جھنجھلا گئے اور بولے کہ میرے دماغ پر اتنا زور مت ڈالو۔ (یہاں اس بات کا ذکر کر دوں کہ یہ وہی چچا ہیں جنہوں نے بعد میں وصیت لکھی تھی).

ان کے انتقال سے صرف پانچ چھ دن پہلے میرے چچا اور تایا آئے اور ان سے ملاقات کے دوران بظاہر ان کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ اپنا وصیت نامہ تیار کریں، جس میں وہ اپنے حصّے کو اپنے خاندان کے مستحق افراد کے لیے وصیت کر دیں جس سے ان کی مدد کی جاسکے۔ اس حوالے سے چچا تایا کی والد صاحب سے حقیقتاً کیا بات ہوئ، ہم اس سے لاعلم ہیں کیونکہ ہم اس گفتگو میں شامل نہیں تھے۔ ایک اور چیز بیان کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے خیال کے مطابق ہمارے چچا اور تایا یہ سمجھتے تھے کہ میرے والد صاحب کی جائیداد بہت زیادہ ہے چنانچہ انھوں نے میرے والد صاحب کو راضی کرنے کی کوشش کی کہ اپنی جائیداد اپنے خاندان والوں کے لیے بھی وصیت کردیں۔ واللہ اعلم۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ والد کے انتقال کے بعد جب ہم نے اپنے چچا کو جائیداد کی اصل رقم/اصل قیمت بتائی جو کہ میرے والد صاحب چھوڑ کے گئے تھے تو وہ بظاہر حیران ہوئے۔

ہمارے تایا، چچا اور پھوپھی کے مسلسل کہنے پر 25 اپریل 2010ء کو انتقال سے پانچ دن پہلے ان کی وصیت ہمارے چچا نے لکھی۔ والد کے وصیت کرتے وقت چچا کے ساتھ میں، میری امی، اور میری بہن کمرے میں موجود تھے۔ ان کی وصیت میرے چچا نے ایک سادہ کاغذ پر لکھی تھی۔

اس وصیت نامے کے مطابق انھوں نے قرض وغیرہ اتارنے کے بعد ایک تہائی مال سے مندرجہ ذیل کام کرنے کو کہے:

●        جو بھی نمازیں اور روزے چھوٹے اس کا فدیہ دیا جائے۔

●        خاندان کے افراد کی مدد کی جائے جو مالی طور پر مشکلات کا شکار ہیں۔

●        پانچ لاکھ روپے ان کے داماد کو بغرض کاروبار دیے جائیں۔

والد صاحب کی وصیت جو میرے چچا نے تحریر کی تھی اس سوال نامے کے ساتھ منسلک کر دی ہے۔

اب جب کہ ہم ان کی جائیداد فروخت کر رہے ہیں اور ان کے وصیت نامے کو عملی جامہ پہنانا چاہ رہے ہیں تو ہم تھوڑے سے پریشان اور تذبذب کا شکار  ہیں۔ جو وصیت نامہ چچا نے تحریر کیا تھا اس میں ایک تہائی کا ذکر ہے۔ جب وہ اپنا وصیت نامہ لکھوا رہے تھے اس وقت میری سمجھ غالباً یہ تھی کہ ایک انسان ایک تہائی سے نہ کم کی وصیت کر سکتا ہے اور نہ زیادہ کی۔ لیکن حال ہی میں مجھے معلوم ہوا کہ ایک انسان اپنی جائیداد میں سے ایک تہائی سے کم کی وصیت بھی کر سکتا ہے، مثلاً ایک چوتھائی، ایک دہائی وغیرہ۔ اگر مجھے اس وقت یہ معلومات ہوتیں تو میں اپنے والد صاحب سے درخواست کرتا کہ وہ اس معاملے کو واضح کریں اور پانچویں یا آٹھویں حصے کی وصیت کر دیں تاکہ میں، میری والدہ اور میری بہن اپنے لئے ایک مناسب گھر خرید سکیں اور اپنی باقی مالی ضروریات پوری کر سکیں۔ اس وقت اس حوالے سے چچا نے بھی کوئی گفتگو یا رہنمائی نہیں کی۔ 

اوپر جو ساری تفصیل بیان کی گئی ہے ان کو سامنے رکھتے ہوئے ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کیا یہ وصیت مرض الوفات کی وصیت کہلائے گی؟ اگر ہاں تو اس وصیت کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ کیا یہ نافذ ہوگی یا نہیں؟ خاص طور سے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ وصیت کرتے وقت ان کی ذہنی اور جسمانی حالت سو فیصد صحیح نہ تھی۔ اور اسی بیماری میں ان کا انتقال ہوا جو ان کو 2003ء سے تھی یعنی لیور سروسز (liver cirrhosis

وضاحت: سائلہ نے فون پر بتایا کہ بالکل مجنون اور پاگلوں کی طرح تو نہیں تھے، البتہ  ذہنی اعتبار سے مکمل تندرست بھی نہیں تھے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ ساٹھ ستر فیصد ان کا ذہنی توازن درست تھا اور دستخط بھی انہوں  نے خود کیے تھے۔ نیز یہ بھی بتایا کہ کبھی طبیعت زیادہ خراب ہو جاتی تھی، البتہ جس وقت وصیت لکھی گئی اس وقت زیادہ خراب نہیں تھی۔ وصیت کرتے وقت وہ خود بتا رہے تھے کہ یہ چیزیں نماز اور روزوں کا فدیہ وغیرہ لکھ دیں اور چچا مضمون کی شکل میں لکھ رہے تھے، یہ بھی بتایا کہ انہوں نے یہ جملہ بھی خود کہا کہ میرے پوتے حمزہ کی دینی اور دنیوی تعلیم کے لیے دو لاکھ روپے رکھنا، تاکہ اس کو معلوم ہو سکے کہ اس کے دادا کتنا دینی ذہن رکھتے تھے؟ نیز سائلہ نے یہ بھی بتایا کہ والد صاحب نفسیاتی مریض نہیں تھے، البتہ بیماری کی وجہ سے ان کا ذہن اس طرح کا ہو گیا تھا۔                          

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ وصیت لکھواتے وقت آپ کے والد صاحب کا ذہنی توازن اس قدر خراب نہیں تھا کہ ان کو کسی چیز کی خبر نہ ہو، بلکہ سوال میں تصریح کے مطابق ان کا ساٹھ ستر فیصد ذہنی توازن درست تھا، اسی لیے آپ کے چچا اور تایا چار پانچ دن تک ان کو وصیت کے لیے تیار کرتے رہے، پھر وصیت لکھتے وقت جن چیزوں کی وصیت کرنا تھی وہ چیزیں انہوں نے خود لکھوائیں، خصوصا یہ جملہ بھی لکھوایا کہ میرے پوتے حمزہ کی دینی اور دنیوی تعلیم کے لیے دو لاکھ روپے رکھنا، تاکہ وہ پہچان سکے کہ اس کے دادا کتنا دینی ذہن رکھتے تھے؟ اور پھر وصیت نامہ پر دستخط بھی انہوں نے خود کیے ، اس لیے  اگرچہ  بیماری کی وجہ سے ان کی طبیعت زیادہ درست نہیں تھی اور ان سے کبھی ناسمجھ آدمیوں کی طرح بھی اقوال وافعال سرزد ہو جاتے تھے، لیکن وصیت لکھواتے وقت ہماری رائے کے مطابق ان کا ذہنی توازن کافی حد تک درست تھا، نیز فقہائے کرام رحمہم اللہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ جس شخص کو کبھی جنون لاحق ہوتا ہو اور کبھی وہ تندرست  آدمیوں کی طرح باتیں وغیرہ کرتا ہو تو اس کے تندرستی کے اوقات میں کیے گئے اقوال وافعال معتبر ہوتے ہیں، اس لیے ہماری رائے کے مطابق آپ کے والد صاحب کی طرف سے کی گئی وصیت درست اور نافذ ہے،  یہ بھی واضح رہے کہ ایک تہائی مال میں کی گئی وصیت مرض الوفاة میں بھی شرعاً درست شمار ہوتی ہے اور اس پر عمل کرنا واجب ہوتا ہے۔

حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (9/ 98) دار المعرفة – بيروت:
والذي يجن ويفيق، في حال إفاقته كغيره من الأصحاء يلزمه الحد بالزنا في هذه الحالة سواء أقر به أو شهد عليه الشهود.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 64) دار الكتب العلمية، بيروت:
والذي يجن ويفيق يعتبر حاله في الجنون والإفاقة؛ فإن كان مجنونا في أيام النحر فهو على الاختلاف، وإن كان مفيقا يجب بلا خلاف، وقيل إن حكمه حكم الصحيح كيفما كان۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7/ 51) دار الكتب العلمية، بيروت:
والذي يجن ويفيق إذا أقر في حال إفاقته - فهو مثل الصحيح؛ لأنه في حال إفاقته صحيح۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7/ 134) دار الكتب العلمية، بيروت:
 ولو كان الرجل ممن يجن ويفيق فإن ارتد في حال جنونه لم يصح، وإن ارتد في حال إفاقته صح؛ لوجود دليل الرجوع في إحدى الحالتين دون الأخرى۔
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (2/ 706) دار إحياء التراث العربي:
الإعتاق في المرض من أنواع الوصية لكن لما كان له أحكام مفروضة أفرده بباب على حدة وأخره عن صريح الوصية؛ لأنه الأصل (العبرة بحال التصرف في التصرف المنجز) وهو الذي أوجب حكمه في الحال كأنت حر أو وهبتك (فإن كان) التصرف المنجز (في الصحة فمن كل المال، وإن) كان (في مرض الموت فمن ثلثه) أي ثلث المال والمراد بالتصرف الذي هو إنشاء ويكون فيه معنى التبرع حتى إن الإقرار بالدين في المرض ينفذ من كل المال.
 
مجلة الأحكام العدلية (ص: 352) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
الفصل الأول في بيان الحجج الخطية: المادة (1736) لا يعمل بالخط والخاتم فقط أما إذا كان سالما من شبهة التزوير والتصنيع فيكون معمولا به أي يكون مدارا للحكم ولا يحتاج للإثبات بوجه آخر.
المادة (1737) البراءات السلطانية وقيود الدفاتر الخاقانية لكونها أمينة من التزوير معمولا بها.
المادة (1738) - (يعمل أيضا بسجلات المحاكم إذا كانت قد ضبطت سالمة من الحيلة والفساد على الوجه الذي يذكر في كتاب القضاء.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

24/ذوالحجہ 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب