021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وصیت نامہ کے مطابق وصیت پر عمل کرنا ضروری ہے
77345وصیت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیا یہ ضروری ہے کہ ہم وصیت پوری کرنے کے لئے ایک تہائی رقم ہی مختص کریں یا ہم اس سے کم  مثلاً چھٹا یا آ ٹھوں حصہ بھی اس مقصد کے لیے استعمال میں لاسکتے ہیں (ان کاموں کے لیے جو میرے والد نے کہے تھے اور اوپر تحریر ہیں)۔

تحریری وصیت جو چچا نے لکھی اس میں جوایک تہائی کا ذکر ہے کیا وہ والد صاحب نے کہا تھا یا چچا نے جیسا کہ وصیت میں لکھا جاتا ہے اس حساب سے لکھا اس بارے میں ہمیں یاد نہیں۔ حالیہ دنوں میں جب ہم نے اپنے چچا سے پوچھا کہ ایک تہائی جو یہ وصیت میں تحریر ہے کیا یہ والد صاحب نے وضاحت کی تھی کہ ایک تہائی کا لفظ استعمال کیا جائے یا جیسا کہ عام طور پر ایک تہائی کی وصیت کی جاتی ہے اس لیے یہ لفظ استعمال کیا گیا، تو چچا نے کہا کہ چونکہ دس بارہ سال گزر چکے ہیں تو مجھے صحیح یاد نہیں کہ کیا والد صاحب نے وضاحت سے ایک تہائی کا لفظ استعمال کیا تھا یا نہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس چیز کی تو وہ گواہی دیں گے کہ جن دنوں میں وصیت لکھی گئی، اس وقت ان کی ذہنی اور جسمانی حالت مکمل ٹھیک نہیں تھی۔

آج کے حساب سے میرے والد کی کل جائیداد کی مالیت تقریبا چار کروڑ روپے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک تہائی سوا کروڑ سے زیادہ کی رقم ہوگی۔ جبکہ جو ہدایات انہوں نے دی ہیں وہ آرام سے تیس سے چالیس لاکھ روپے میں بھی پوری ہو سکتی ہیں۔ اور اس وقت ہمارے خاندان میں فی الحال ایسا کوئی نہیں ہے جس کو ایک کروڑ یا اس سے زیادہ رقم کی فوری ضرورت ہو،  ہماری رہنمائی فرمائیں۔

ہم کوئی ناانصافی کرنا نہیں چاہتے، نہ اپنے والد کا کوئی نقصان کرنا چاہتے ہیں اور ہم بہت خوشی سے ان کی وصیت کو شریعت کے مطابق پورا کرنا چاہتے ہیں۔ اس سوال کا مقصد یہ ہے کہ ہم جان سکیں کہ کیا اس حوالے سے کوئ لچک یا گنجائش ہے کہ ہم بجائے ایک تہائی کے کچھ کم رقم وصیت پر خرچ کر دیں تاکہ ہم اپنی ضروریات کو بھی پورا کرسکیں۔ اگر ہم ایک تہائی ان کی جائیداد میں سے دے دیتے ہیں تو میرے اور میری بہن کے لئے ایک مناسب گھر خریدنا مشکل ہو جائے گا اور ہمیں اپنے مسائل اور مالی مشکلات کو حل کرنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ کیونکہ ہمارا حصہ جائیداد میں اتنا نہیں بن پائے گا۔

میری بہن شادی شدہ ہیں اور ان کو ایک مناسب گھر کی ضرورت ہے، کیونکہ ان کے شوہر کے پاس گھر نہیں ہے اور میں بھی شادی شدہ ہوں اور اپنے تین بچوں اور بیوی کے ساتھ کرائے کے گھر میں رہتا ہوں۔

وضاحت: سائل نے بتایا کہ والد صاحب نے وصیت کرتے وقت یہ بھی کہا تھا کہ دو لاکھ روپے میرے پوتے حمزہ کی دینی اور عصری تعلیم کے لیے رکھ لینا، تاکہ اس کو معلوم ہو جائے کہ میرے دادا دینی ذہن رکھتے تھے۔سوال یہ ہے کہ کیا اس کو بھی وصیت میں شمار کیا جائے گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال کے ساتھ منسلک وصیت نامہ میں چونکہ ایک تہائی کی صراحت مذکور ہے اور آپ حضرات کے پاس اس کے خلاف کوئی قوی دلیل موجود نہیں، اس لیے جب تک اس کے خلاف کا کوئی قوی قرینہ یا دلیل موجود نہ ہو تو اس وقت تک شرعاً ایک تہائی مال میں یہ وصیت نافذ ہو گی، نیز احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ والد صاحب کی وصیت كے مطابق ان کے کل ترکہ کا ایک تہائی مال وصیت میں خرچ کیا جائے، اس میں والد صاحب کو بھی اجروثواب ملے گا اور آپ حضرات بھی شرعاً برئ الذمہ ہو جائیں گے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ خاندان میں ایسا کوئی بھی شخص نہیں جس کو ایک کروڑ یا اس سے زیادہ مال کی ضرورت نہیں تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ وصیت نامہ میں خاندان کے مستحق افراد کی کفالت کا ذکر ہے اور مستحق افراد میں ہر ایسا ضرورت مند شخص (خواه وه مرد ہو یا عورت) شامل ہے جس کی ملکیت میں سونا، چاندی، نقدی، مال تجارت اور ضرورت سے زیادہ سامان (جو سال بھر استعمال میں نہ آتا ہو) میں سے کوئی ایک یا دو چیزیں اتنی مقدار میں موجود نہ ہوں جن کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابرہو۔ اور یہ وصیت صرف ایک مرتبہ مال دینے سے پوری نہیں ہو جائے گی، بلکہ جب  تک خاندان میں مستحق زکوة  افراد رہیں گے اس وقت تک اس وصیت پر عمل کرنا ضروری ہو گا۔ البتہ جب خاندان میں کوئی بھی مستحقِ زکوة شخص باقی نہ  رہے تو مستحقین کے حصے کی رقم ورثاء کے درمیان تقسیم کی جائے گی، نیز خاندان کے مستحقین کا اندازہ مرحوم کی وفات کے وقت لگایا جائے گا، کیونکہ شرعاً وصیت کا نفاذ آدمی کی وفات کے فوراً بعد ہوتا ہے، لہذا اگر مرحوم کی وفات کے وقت مستحقین افراد موجود تھےتو وصیت کے مال سے ان کی کفالت کی جائے گی، نیز اگر اب ان میں سے کوئی مستحق نہ رہا ہو تو بھی گزشتہ ایام کی کفالت کی رقم اس کو دی جائے گی اور اگر ان میں سے کوئی شخص فوت ہو چکا ہوتو اس کے حصہ کی رقم اس کے ورثاء کے درمیان تقسیم کی جائے گیز

 البتہ اگر مرحوم کی وفات کےوقت خاندان میں مستحقینِ زکوة  افراد موجود نہیں تھے تو اس صورت میں مستحقین کا حصہ مرحوم کے ورثاء میں تقسیم ہو گا اور  بقیہ وصیت پر عمل کیا جائے گا۔جس میں پوتے کے لیے کی گئی وصیت بھی شامل ہوگی، کیونکہ بیٹے کی موجودگی میں پوتا وارث نہیں ہوتا اور غیر وارث کے لیے کی گئی وصیت درست اور نافذ ہوتی ہے۔

حوالہ جات
الاختيار لتعليل المختار (5/ 70) دار الكتب العلمية – بيروت:
وتجوز الوصية بخدمة عبده وسكنى داره وبغلتهما أبدا ومدة معلومة، فإن خرجا من الثلث استخدم وسكن واستغل، وليس له أن يؤاجرهما، وإن لم يكن له مال غيرهما خدم الورثة يومين والموصى له يوما، فإن مات الموصى له عاد إلى الورثة.
الهداية في شرح بداية المبتدي (4/ 533) دار احياء التراث العربي – بيروت:
قال: "فإن كان مات الموصى له عاد إلى الورثة" لأن الموصي أوجب الحق للموصى له ليستوفي المنافع على حكم ملكه، فلو انتقل إلى وارث الموصى له استحقها ابتداء من ملك الموصي من غير مرضاته وذلك لا يجوز. "ولو مات الموصى له في حياة الموصي بطلت" لأن إيجابها تعلق بالموت على ما بيناه من قبل.
 بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7/ 386) دار الكتب العلمية،بيروت:
(وأما) ملك المنفعة بالوصية المضافة إليها مقصودا، فيتعلق بها أحكام مختلفة، فنذكرها، فنقول -وبالله التوفيق -: إن الملك في المنفعة ثبت موقتا لا مطلقا، فإن كانت الوصية مؤقتة إلى مدة تنتهي بانتهاء المدة، ويعود ملك المنفعة إلى الموصى له بالرقبة إن كان قد أوصى بالرقبة إلى إنسان، وإن لم يكن يعود إلى ورثة الموصي، وإن كانت مطلقة تثبت إلى وقت موت الموصى له بالمنفعة ثم ينتقل إلى الموصى له بالرقبة إن كان هناك موصى له بالرقبة وإن لم يكن ينتقل إلى ورثة الموصي.
الفتاوى الهندية (6/ 131) دار الفكر:
وفي النوازل إذا أوصى بوصايا وأوصى للفقراء وأوصى لمعتقه بمائة فمات معتقه بعد موته إن كان بيّن لكل وصيّة شيئا مقدرا وجعل الباقي للفقراء فمائة المعتق تصرف إلى الفقراء، فأما إذا بين لكل وصية شيئا مقدرا وبين للفقراء شيئا مقدرا فمائة المعتق تصرف إلى ورثة الموصي.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7/ 343) دار الكتب العلمية، بيروت:
لو أوصى لفقراء بني فلان دون أغنيائهم، وبنو فلان قبيلة لا تحصى، ولا يحصى فقراؤهم، فالوصية جائزة لما قلنا بل أولى؛ لأنه لما صحت الوصية لفقراء المسلمين مع كثرتهم، فلأن تصح لفقراء القبيلة أولى.
فإن لم يقل لفقرائهم، ولكنه أوصى لبني فلان، ولم يزد عليه، فهذا لا يخلو من أحد، وجهين: (إما) إن كان فلان أبا قبيلة.
(وإما) إن لم يكن أبا قبيلة بل هو رجل من الناس يعرف بأبي فلان فإن كان أبا قبيلة مثل تميم، وأسد، ووائل، فإن كان بنوه يحصون؛ جازت الوصية لهم؛ لأنهم إذا كانوا يحصون، فقد قصد الموصي تمليك المال منهم لا الإخراج إلى الله تعالى.

 محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

24/ذوالحجہ 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب