021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سرکاری عیدگاہ میں مسجدبنانا
77387وقف کے مسائلوقف کے متفرّق مسائل

سوال

السلام علیکم و رحمة الله وبركاته !

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں

ایک عید گاه ہے 7000 میٹر مربع۔جہاں عید کی نماز پڑھی جاتی ہے۔،مگر غیر آباد ہے،عیدگاہ کے متولی 1000میٹر پر مدرسہ بنانا چاہتے ہیں ،تاکہ مدرسہ کی وجہ سے عیدگاه محفوظ اور آباد ہو اور دین کی خدمت ہوسکے، کیا یہ جائز ہے؟ اگر نہیں،تو برائے کرم جواز کی کوئی صورت بتادیں،کیونکہ مدرسہ کےلیے شہر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔حکومت کی طرف سے صرف عیدگاہ میں مدرسہ بنانے کی اجازت ہے۔کسی دوسری جگہ اجازت نہیں۔نیز یہ سرکاری جگہ ہے،جو حکومت کی طرف سے عیدگاہ کے لیے ملی ہے،کسی خاص بندے نے وقف نہیں کی ہے،اور حکومت  صرف عیدگاه میں مدرسے بنانے کی اجازت دے رہی ہے۔ایران کے قانون کے مطابق عیدگاہ حکومت کے قبضے میں ہے،اصل متولی حکومت ہے،حکومت نے یہاں مدرسہ بنانے کی اجازت دی ہے،لوگ اس میں عید بھی پڑھ سکیں گے، عیدگاہ کی حفاظت بھی ہوگی،نیز مدرسہ بنانے میں حکومت کا قبضہ ختم کرنا بھی آسان ہوگا۔اب اس صورت میں عیدگاہ کے اندر مدرسہ بناناجائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حکومت کی جانب سے اجازت ہو تو اس حصہ میں مدرسہ بنانے کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (2/ 490):
 ولا يجوز تغيير الوقف عن هيئته فلا يجعل الدار بستانا ولا الخان حماما ولا الرباط دكانا، إلا إذا جعل الواقف إلى الناظر ما يرى فيه مصلحة الوقف، كذا في السراج الوهاج.
 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 359):
ونقل في الذخيرة عن شمس الأئمة الحلواني أنه سئل عن مسجد أو حوض خرب، ولا يحتاج إليه لتفرق الناس عنه هل للقاضي أن يصرف أوقافه إلى مسجد أو حوض آخر: فقال: نعم
وفی فتح القدير (1/ 422):
 ولا يجوز أن تعمل فيه الصنائع لأنه مخلص لله فلا يكون محلا لغير العبادة غير أنهم قالوا في الخياط إذا جلس فيه لمصلحته من دفع الصبيان وصيانة المسجد لا بأس به للضرورة.

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

27/ذوالحجہ1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب