021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ضرورت کے پیشِ نظر زندگی میں مکمل جائیداد کسی ایک بیٹی کو دینا
77419ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

ایک صاحب کی چار اولادیں ہیں۔ پہلی تین اولادیں خوشحال ہیں۔ تینوں کی اچھی آمدنی ہے اور اپنے ذاتی گھر ہیں۔ سب سے چھوٹی بیٹی طلاق یافتہ ہے، تین چھوٹے بچے ہیں (ابھی کماتے نہیں ہیں) ، کرایے کے فلیٹ میں رہتی ہے، فی الحال ذریعہ آمدنی نہیں ہے، والد صاحب اور ایک بھائی ماہانہ اخراجات کا بندوبست کرتے ہیں۔ وه صاحب بوڑھے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنی زندگی میں اپنی طلاق یافتہ بیٹی کو سرچھپانے کا مستقل ٹھکانہ فراہم کردیں ،تا کہ ان کے بعد کہیں وہ دربدر نہ ہو جائے۔ ان صاحب کے پاس کچھ ذاتی رقم ہے جس سے ایک پرانا فلیٹ خریدا جا سکتا ہے۔ وہ صاحب اگر فلیٹ خرید کر اپنی طلاق یافتہ بیٹی کو ہبہ (گفٹ) کر دیتے ہیں تو ان کے پاس اپنی دیگر اولادوں کو دینے کے لیے کچھ باقی نہیں بچے گا۔ان صاحب نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی ذاتی رقم سے اپنی زندگی میں ایک فلیٹ اپنی طلاق یافتہ بیٹی کے نام سے خرید کر اسے اس فلیٹ کا قبضہ دے کر اسے اس کا مالک بنادیں۔ ان کی ایک اولاد تو ان کے اس فیصلے میں ان کے ساتھ ہے، لیکن دو اولادوں کا خیال ہے کہ ان کے والد کا یہ فیصلہ درست نہیں ہے۔ ان دو اولادوں کے خیال کے مطابق ان کے والد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی ذاتی رقم اس طرح تقسیم کرسکیں کہ ایک اولاد کو ساری رقم مل جائے اور بقایا اولادوں کو کچھ بھی نہ ملے۔ ان دو اولادوں کے خیال کے مطابق اس طرح رقم تقسیم کر کے ان کے والد صاحب ان کا حق مار رہے ہیں۔

سوال نمبر1یہ ہے کہ مذکورہ بالا حالات کی روشنی میں کیا ان صاحب کو شرعا یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ذاتی رقم اپنی زندگی میں اس طرح تقسیم کر دیں کہ ایک فلیٹ خرید کر اپنی طلاق یافتہ بيٹی کو اس کا مالک بنا دیں تا کہ اس کے سر چھانے کا مستقل انتظام ہو جائے، لیکن باقی اولادوں کے لیے ان کی ذاتی رقم میں سے پھر کچھ بھی باقی نہ بچے ؟

سوال نمبر2یہ ہے کہ کیا ان صاحب کی ان دو اولادوں کا یہ خیال درست ہے کہ اس طرح رقم تقسیم کر کے ان کے والد صاحب ان کا حق مار رہے ہیں؟ بینوا و توجروا

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہ بات درست ہے کہ زندگی میں اولاد کو جائیداد دینا ہبہ اور گفٹ ہے اور اولاد کو ہبہ دینے کی صورت میں  عام حالات میں اولاد کے درمیان برابری کا حکم دیا گیا ہے اور بغیر کسی عذر اور معتبر وجہ کے کسی ایک بیٹے یا بیٹی کو کم یا زیادہ دینا جائز نہیں، لیکن اگر کوئی عذر یا کوئی معتبر وجہ ہو، جیسے بیٹے کی دینداری، غربت یا خدمت وغیرہ تو ایسی صورت میں اس بیٹے کو زیادہ حصہ دینا بھی جائز ہے، بشرطیکہ دوسروں کو محروم کرنے کا ارادہ نہ ہو۔

مذکورہ صورت میں چونکہ طلاق یافتہ بیٹی کے پاس اپنا ذاتی مکان بھی نہیں ہے اورسوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے آمدن کابھی کوئی ذریعہ نہیں ہے، جبکہ اس کے تین بچے بھی ہیں اور آج کل مہنگائی کے دور میں ایک خاتون کے لیے مکان کا کرایہ اور اپنے بچوں وغیرہ کا خرچ چلانا بہت مشکل ہے، لہذا اس تمام صورتِ حال کے پیشِ نظر والد کا اپنی مذکورہ بیٹی کو مکان خرید کردینا جائز ہے، کیونکہ اس میں دوسری اولاد کو محروم کرنا مقصود نہیں، بلکہ اپنی حاجت مند بیٹی کی ضرورت اور حاجت کو پورا کرنا مقصود ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ دیگر اولاد کے لیے کچھ نہیں بچے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصولی طور پر مرض الوفاة سے پہلے والد کے مال کے ساتھ کسی اولاد کا حق متعلق نہیں ہے، اسی لیے شریعت نے تندرستی کی حالت میں اپنا تمام اللہ کے راستے میں دینے کی اجازت دی ہے، جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک کے موقع پر اپنا تمام مال اللہ کے راستے میں صدقہ کیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی تھی۔  

نیزمذکورہ صورت میں والدصاحب ایسا بھی کر سکتے ہیں کہ مکان خرید کر اپنے تینوں نواسوں کے نام کروا کر مالکانہ حقوق بھی ان کی طرف منتقل کر دیں، جس کی صورت یہ ہے کہ نواسوں کو  اپنی والدہ سمیت اس فلیٹ میں منتقل ہو جائیں تو وہ لوگ قبضہ ہونے کی وجہ سے شرعاً اس مکان کے مالک بن جائیں گے اور ایسی صورت میں اولاد میں سے کسی بھی شخص کو اعتراض کاحق حاصل نہیں ہو گا، کیونکہ عدل و انصاف کا حکم صرف اولاد کو ہبہ کرنے کی صورت میں ہے، ورثاء کے علاوہ کسی اور شخص کو ہبہ اور گفٹ دینے میں عدل کرنا ضروری نہیں ہے اور بیٹوں کی موجودگی میں نواسے وارث نہیں بنتے، لہذا تندرستی (مرض الوفاة سے پہلے  پہلے) کی حالت میں مذکورہ شخص کا اپنے نواسوں(جوکہ فی الحال شرعاً وارث نہیں ہیں) کو اپنا تمام مال ہبہ کرنا  شرعاًجائز ہے۔

حوالہ جات
سنن الترمذي (5/ 614، رقم الحديث: 3675) شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر:
عن زيد بن أسلم، عن أبيه، قال: سمعت عمر بن الخطاب، يقول: أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نتصدق فوافق ذلك عندي مالا، فقلت: اليوم أسبق أبا بكر إن سبقته يوما، قال: فجئت بنصف مالي، فقال رسول الله صلى الله عليه: وسلم: «ما أبقيت لأهلك؟» قلت: مثله، وأتى أبو بكر بكل ما عنده، فقال: «يا أبا بكر ما أبقيت لأهلك؟» قال: أبقيت لهم الله ورسوله، قلت: لا أسبقه إلى شيء أبدا. هذا حديث حسن صحيح.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 444) دار الفكر-بيروت:
أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة: أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية، ولو كنت مؤثراً أحداً لآثرت النساء على الرجال». رواه سعيد في سننه، وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم». فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا، والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية: ولو وهب شيئاً لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى."
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (5/ 4014) دار الفكر ،دمشق:
وقال جماعة (وهم أحمد والثوري وطاووس وإسحاق وآخرون): تجب التسوية بين الأولاد في العطية أو الهبة، وتبطل العطية مع عدم المساواة، عملاً بظاهر الأمر في الأحاديث، الذي يقتضي الوجوب مثل قوله عليه السلام: «اتقوا الله» وقوله: «اعدلوا بين أولادكم»  وقوله: «فلا إذن» وقوله في حالة إعطاء بعض دون بعض: «لا أشهد على جور».
واختلف هؤلاء في كيفية التسوية، فقيل بأن تكون عطية الذكر والأنثى سواء وهو ظاهر رواية عند النسائي: «ألا سويت بينهم» وعند ابن حبان: «سووا بينهم» وحديث ابن عباس: «سووا بين أولادكم في العطية، فلو كنت مفضلاً أحداً لفضلت النساء».
وقال الحنابلة: بل التسوية أن يجعل للذكر مثل حظ الأنثيين على حسب التوريث. وروي عن أحمد: أنه يجوز التفاضل إن كان له سبب، كأن يحتاج الولد لزمانته المرضية
أو لعمى، أو لقضاء دينه، أو كثرة عائلته، أو للاشتغال بالعلم، أو نحو ذلك دون الباقين[1].
البناية شرح الهداية (10/ 218) دار الكتب العلمية – بيروت:
 (ومن نذر أن يتصدق بملكه لزمه أن يتصدق بالجميع) ش: أي بجميع ما يملكه؛ لأن الملك أعم من المال؛ لأنه قد يملك غير المال مثل القصاص والنكاح والخمر، فوجب العمل لعمومه، ولكن يحبس قدر ما ينفق على نفسه وعامليه إلى حين كسبه مالا آخر فيخرج مثله ولا يقدر بشيء لأن الناس يتفاوتون في ذلك باختلاف أحوالهم في النفقات م: (ويروى أنه) ش: أي الملك م: (والأول) ش: أي المال م: (سواء) ش: لأن الملك عبارة عن الربط والشد والمال ما يصل إليه القلب فيكون في معنى الربط والشد فيتناسبان، وهذه الرواية رواية الحاكم الشهيد م: (وقد ذكرنا الفرق) ش: أي بين المال والملك م: (ووجه الروايتين في مسائل القضاء) ش: أي من هذا الكتاب في مسألة مالي صدقة على المساكين.
م: (ويقال له) ش: أي الناذر يتصدق بملكه م: (أمسك ما تنفقه على نفسك وعيالك إلى أن تكتسب مالا فإذا اكتسب يتصدق بمثل ما أنفق، وقد ذكرناه من قبل) ش: أي في كتاب القضاء في باب القضاء بالمواريث. وفي " الغاية ": ثم إنه يمسك قوته في قوله جميع ما أملك صدقة لأنه لا بد له منه، ولكن لم يبين محمد في " المبسوط " و " الجامع الصغير " مقدار ما يمسك من القوت.
 

([1])أصدرت لجنة الفتوى بالأزهر جواباً عن سؤال حول إمكان التمييز بين الورثة، وتضمنت الفتوى ما يلي:
أولاً ـ يجب على الوالدين التسوية بين الأولاد في العطية والهدايا والإنفاق، ما استطاعا إلى ذلك سبيلاً، ولا يجوز الخروج عن هذا الأصل إلا لمبرر يأتي، عملاً بالأحاديث السابقة الآمرة بالتسوية.
ثانياً ـ إذا أنفق أحد الوالدين على أحد الأولاد نفقة ذات قيمة بأن زوجه ودفع له مهر الزوجة، أو أنفق على تعليمه بما أوصله إلى وظيفة ذات غناء، أو جهز إحدى بناته، كان عليه أن يعوض سائر ولده الآخرين بمقدار ما أنفقه على ولده الأول.
ثالثاً ـ يجوز تفضيل بعض الأولاد على بعض لمبرر شرعي، ومن المبررات الشرعية: العاهات المانعة من التكسب كالزمانة، والعمى المانع، والشلل، وكذلك العجز عن التكسب، والاشتغال بالعلم الديني (مجلة الأزهر ـ العدد الثالث من السنة الرابعة عشرة).

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

2/محرم الحرام 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب