021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک شریک کا دوسرے شرکاء کی اجازت کے بغیر مشترک جائیداد بیچنا
77469شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

 

200 گز

حاجی منان

200 گز

1۔ فضل واحد

2۔ غازی خان

3۔ خیر محمد

4۔ دوست محمد

5۔ پیر محمد بمع والدین

 

 

 

 

 

 

 

ٹوٹل 400 گز پلاٹ

 

  1. بعد از سلام عرض یہ ہے کہ مندرجہ بالا  نقشے کے مطابق یہ 200 اور 200 گز کے دو پلاٹ ہیں لیکن ان کی فائل ایک ہی ہے جو غازی خان کے نام پر لیز ہے۔
  2. اس میں 200 گز پلاٹ کا حصہ دار حاجی منان ہے۔
  3. بقیہ 200 گز میں 5 بھائی بمع والدین حصہ دار ہیں یعنی والدین اور ان کے پانچ سگے بیٹے
  4. یہ ٹوٹل 400 گز جگہ بنتی ہے اور آج سے 27 سال پہلے ان سب نے باہمی رضامندی سے جگہ کی لیز غازی خان کے نام پر کروائی تھی جو بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہے۔
  5. آج سے تقریباً 6 سال قبل غازی خان نے لیز فائل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بھائیوں اور حاجی منان کی اجازت کے بغیر چوری چھپے مارکیٹ میں بیچ دی۔
  6. غازی خان نے 6 سال قبل جگہ ایک کروڑ تیس لاکھ میں بیچی تھی۔
  7. جب دوسرے بھائیوں اور حاجی منان کو پتہ چلا تو انہوں نے پلاٹ کی فروخت کو ناجائز قرار دیا۔
  8. اس کے بعد غازی خان کو دوست محمد(غازی خان کے بھائی) نے فون کر کے کہا کہ میں آپ کو اس پلاٹ پر پچاس لاکھ روپے منافع دیتا ہوں یعنی ایک کروڑ اسی لاکھ میں پلاٹ میرا ہو گیا لیکن میں اپنے والدین اور بھائیوں کی جائیداد باہر نہیں بیچوں گا۔
  9. غازی خان نے اس بات کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا اور اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا۔
  10. اس کے بعد دوست محمد اور دیگر بھائیوں نے پلاٹ خریدنے والے مثل خان سے رابطہ کیا۔
  11. تقریبا دو ہفتوں کی بحث کے بعد مثل خان پلاٹ سے دست بردار ہو گیا اور 13 لاکھ روپے منافع لے کر پلاٹ چھوڑ دیا۔
  12. ایک بھائی پیر محمد نے ایک کروڑ تیس لاکھ روپے میں سے اپنا حصہ جو سولہ لاکھ پچیس ہزار بنتا ہے، وصول کر کے اپنا حصہ غازی خان کو بیچ دیا۔
  13. یاد رہے کہ ان 5 بھائیوں میں سے سب سے بڑے بھائی فضل واحد نے اپنا حصہ ان چار بھائیوں کو مشترکہ طور پر بیچ دیا تھا اور 27 سال قبل پلاٹ سے نکل گیا تھا۔

نوٹ: یہ پلاٹ سے متعلق تھوڑی سی منظر کشی کی کوشش ہے تا کہ آپ احباب کو جاننے میں اور کسی نتیجہ تک پہنچنے میں آسانی رہے۔ توجہ طلب نکات کے جوابات دے کر ہماری رہنمائی فرمائیں تا کہ ان کے درمیان فیصلہ کرنے میں آسانی رہے۔عید الاضحیٰ کے 10 دن بعد ان 4 سگے بھائیوں نے شریعت پر اپنا فیصلہ یعنی قسم اور قرآن اٹھانے کا اختیار دیا ہے۔ اس لیے ہم جرگہ ممبران کی کوشش ہے کہ یہ بھائی قسم اور قرآن اٹھانے سے بچ جائیں اور ہم جرگہ ممبران صلح کے ذریعے ان کا راضی نامہ کروا دیں۔

  1. کیا بھائیوں اور ایک عدد پارٹنر حاجی منان کی اجازت کے بغیر غازی خان کا اس طرح چوری چھپے پلاٹ فروخت کر دینا جائز ہے؟
  2. چونکہ غازی خان نے یہ پلاٹ ایک کروڑ تیس لاکھ روپے میں مثل خان نامی شخص کو بیچا تھا۔اس کے حساب سے اس نے ایک بھائی پیر محمد کو حصہ بھی دیا ہے۔ اب اگر پلاٹ کی قیمت لگتی ہے تو غازی خان پرانے ریٹ یعنی ایک کروڑ تیس لاکھ کے حساب سے پیسے لے گا یا آج کے موجودہ ریٹ تقریباً چھ کروڑ کے حساب سے لے گا؟
  3. یاد رہے کہ پلاٹ باقی بھائیوں نے مثل خان کو 13 لاکھ روپے دے کر واپس کروایا ہے۔ اب باقی بھائی، غازی خان اور پیر محمد کو ایک کروڑ تیس لاکھ کے ریٹ میں حصہ دینے پر تیار ہیں۔ جو رقم اضافی بنتی ہے، اس میں حصہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ شریعت کی رو سے رہنمائی فرمائیں کہ کون سا فریق حق پر ہے؟ غازی خان اپنے بھائیوں اور پارٹنر حاجی منان سے کہتا ہے کہ جس ریٹ پر میں نے پلاٹ بیچا تھا یعنی ایک کروڑ تیس لاکھ ، تم لوگوں کا حصہ صرف  اسی حساب سے بنتا ہے ۔باقی اضافی رقم میری ہے۔
  4. ان کے بڑے بھائی فضل واحد نے 27 سال قبل اپنا حصہ لے کر اپنی ساری جائیداد بھائیوں میں یکساں تقسیم کی  تھی جب کہ پیر محمد نے اپنا حصہ صرف ایک بھائی غازی خان کو فروخت کیا ہے۔ کیا پیر محمد کا حصہ اکیلا غازی خان خرید سکتا ہے جب کہ جائیداد سب کی مشترک ہے؟
  5. دوسرے بھائیوں کا کہنا ہے پیر محمد کا حصہ اکیلا غازی نہیں خرید سکتا ہے کیونکہ بڑے بھائی حاجی فضل کاحصہ 27 سال قبل سب بھائیوں نے مشترکہ طور پر خریدا تھا لہذا پیر محمد کا حصہ بھی سب بھائی مل کر خریدیں گے۔ اکیلا غازی خان نہیں خرید سکتا۔ یہاں کس  کی بات درست ہے؟

تنقیحات

  1. پیر محمد نے غازی خان کو اپنا حصہ کب بیچا تھا؟ مثل خان کی دستبرداری سے پہلے یا بعد میں؟

جواب: غازی خان نے پیر محمد کے ساتھ مل کر زمین بیچی تھی۔ پیر محمد نے اپنا حصہ بھی مثل خان کی دستبرداری سے پہلے وصول کر لیا تھا۔

  1. سوال کی ابتداء میں لکھا ہے کہ بھائیوں کے ساتھ والدین بھی پلاٹ کے مالک ہیں۔ بعد میں پیر محمد کے حصے کی جو مقدار لکھی گئی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پچاس فی صد پلاٹ کا مالک حاجی  منان کو سمجھا گیا ہے اور باقی پلاٹ کی رقم کو صرف چار حصوں میں تقسیم کر کے ایک بھائی کے حصے کا حساب کیا گیا ہے۔ کیا والدین اب پلاٹ میں حصہ دار نہیں ہیں؟

جواب: چھ سال پہلے جب پلاٹ بیچا گیا تھا، اس وقت والدین کا انتقال ہو چکا تھا۔ان کاحصہ بھی بھائیوں کے حصے میں آ گیا؛ اس لیے سوال میں ان کے حصے کا ذکر نہیں کیا گیا۔

  1. مثل خان کی پلاٹ سے دست برداری غازی خان کی رضامندی سے ہوئی ہے یا اس کی دست برداری کے وقت وہ اس واپسی پر راضی نہیں تھا؟

جواب: باقی بھائیوں نے غازی خان اور پیر محمد کی رضامندی کے بغیر مثل خان سے پلاٹ واپس کروایا تھا۔غازی خان نے اس پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔

  1. مثل خان کی دست برداری کے بعد پلاٹ کس کے پاس ہے؟ نیز ’’غازی خان اپنے بھائیوں اور پارٹنر حاجی منان سے کہتا ہے کہ جس ریٹ پر میں نے پلاٹ بیچا تھا یعنی ایک کروڑ تیس لاکھ ، تم لوگوں کا حصہ  صرف اسی حساب سے بنتا ہے ۔باقی اضافی رقم میری ہے۔‘‘ اس عبارت کا کیا مطلب ہے؟

جواب: مثل خان نے پلاٹ واپس کرتے وقت فائل غازی خان کے ماموں صنوبر خان کے پاس یہ کہ کر رکھوائی تھی کہ جب آپ لوگوں کا جھگڑا ختم ہو جائے گا تو آپ یہ پلاٹ دوبارہ مجھے دیں گے۔صنوبر خان اسی جگہ پر کرائے پر رہ بھی رہا ہے اور کرایہ غازی خان وصول کر رہا ہے۔ اب اختیار جرگے کے پاس ہے۔جس فریق کے حق میں فیصلہ ہو گا، اس فریق کو فائل اور پلاٹ دے دیے جائیں گے۔

غازی خان نے مثل خان کی دستبرداری کے بعد  جرگے کے کہنے پر حاجی منان کو اس کے حصے   کا پلاٹ واپس کر دیا (اگرچہ حاجی منان کا حصہ بھی ابھی تک صنوبر خان کے زیر استعمال ہے)۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ میں چونکہ بڑا ہوں اور پلاٹ بھی میرے نام ہے۔ آپ نے میرے کیے ہوئے سودے کو ختم کر کے مجھے شرمندہ کیا ہے؛ اس لیے اب  یہ پلاٹ میرا ہے اور میں آپ کو ایک کروڑ تیس لاکھ کے حساب سے حصہ دوں گا۔

  1. مثل خان نے جو رقم ایک کروڑ تیس لاکھ روپے ادا کی تھی، وہ رقم اسے واپس مل گئی ہے؟ اگر ہاں تو کس نے ادا کی ہے؟ اگر نہیں تو کس کے ذمہ ہے؟

جواب: پلاٹ بکنے کے دوسرے یا تیسرے دن جب باقی تین بھائیوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے غازی خان سے پلاٹ واپس کروانے کا اصرار کیا۔ اس نے کہا کہ میں پلاٹ واپس نہیں کرواؤں گا۔ آپ نے جو کچھ کرنا ہے کر لیں۔ اس کے بعد بھائیوں نے مثل خان سے پلاٹ کی واپسی کا اصرار کیا تو اس نے غازی خان سے کہا کہ تمہارے بھائی جھگڑا کر رہے ہیں؛ اس لیے میں پلاٹ واپس کرتا ہوں۔غازی خان نے اسے رقم بھی واپس کر دی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل  اور تنقیحات کے مطابق جس وقت غازی خان نے پلاٹ فروخت کیا ، اس وقت  پلاٹ کے پچاس فی صد حصے کا  مالک حاجی منان تھا۔ باقی پچاس فی صد کے مالک چار بھائی غازی خان، خیرمحمد، دوست محمد اور پیر محمد  تھے۔ غازی خان  نے پیر محمد کی رضامندی سے مثل خان کو پلاٹ بیچ دیا۔ اس کے لیے پلاٹ میں اپنا اور پیر محمد کا  حصہ بیچنا تو جائز تھا لیکن باقی شرکاء کا حصہ ان کی رضامندی کے بغیر  بیچنا جائز نہیں تھا۔ غازی خان کی طرف سے پلاٹ بیچنے کی بات معلوم ہونے پر ،باقی شرکاءاس بیع پر راضی نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے پلاٹ بیچنے  سے انکار کیا لیکن شفعہ کا دعویٰ نہیں کیا؛ اس لیے مثل خان پلاٹ کے صرف اتنے حصے کا مالک بن گیاجو غازی خان اور پیر محمد کی ملکیت تھا۔باقی حصے پہلے کی طرح دیگر شرکاء کی ملکیت  میں ہی رہے۔ جب مثل خان پلاٹ سے دستبردار ہوا تو  اگرچہ غازی خان نے اس پر بھائیوں کے سامنے ناراضگی کا اظہار بھی کیا لیکن اس کے باوجود اس نے پلاٹ کی واپسی کو تسلیم کیا؛ اسی لیے اس نے مثل خان کو رقم واپس کی؛ لہذا یہ شرعاً غازی خان اور پیر محمد کے حصوں میں اقالہ تھا جب کہ باقی دو بھائیوں کے حصوں میں اقالہ کے بغیر پلاٹ کی واپسی تھی کیوں کہ باقی شرکاء کے حصے میں بیع نہیں ہوئی تھی۔ اقالہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسی قیمت پر ہو جس پر چیز بیچی گئی تھی لہذا مثل خان کے لیے تیرہ لاکھ روپے اضافی وصول کرنا جائز نہیں تھا۔ اس پر لازم ہے کہ تیرہ لاکھ روپے واپس کردے۔ جن بھائیوں نے یہ رقم ادا کی تھی، وہ چاہیں تو یہ رقم معاف بھی کر سکتے ہیں۔

جب مثل خان پلاٹ سے دستبردار ہو گیا تو تمام بھائی  بشمول پیر محمداور حاجی منان اسی حساب سے پلاٹ میں دوبارہ شریک ہو گئے جس حساب سے مثل خان کو بیچنے سے پہلے شریک  تھے۔ چونکہ اقالہ کی وجہ سے پیر محمد بھی پلاٹ میں اپنے سابقہ حصے کے بقدر شریک ہے؛ اس لیے اس پر لازم ہے کہ وہ غازی خان سے وصول کی گئی رقم واپس کرے۔ البتہ غازی خان اور پیر محمد اپنی آزادانہ رضامندی سے دوبارہ کسی بھی قیمت پر سودا کر سکتے ہیں۔اس صورت میں باقی شرکاء کو شفعہ کا حق حاصل ہو گا۔

اس تفصیل کے بعدسہولت کے لیے  آپ کے سوالات کا ترتیب وار جواب یہ ہے:

1۔ غازی خان کے لیے اپنا اور پیر محمد کا حصہ بیچنا درست تھا لیکن باقی دو بھائیوں اور حاجی منان کا حصہ بیچنا درست نہیں تھا۔البتہ غازی خان اور پیر محمد کے علاوہ شرکاء چاہتے تو ان دونوں بھائیوں کے حصے میں شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے شفعہ کا دعویٰ کر سکتے تھے۔

2 و 3۔ اس سلسلے میں دونوں پارٹیوں کی بات درست نہیں۔ تمام شرکاء مثل خان کو پلاٹ بیچنے سے پہلے جس حساب سے پلاٹ میں حصہ دار تھے، اسی حساب سے اب بھی پلاٹ میں حصہ دار ہیں۔ان میں سے کوئی بھی شریک اپنا حصہ کسی بھی شخص کو بیچ سکتا ہے۔البتہ باقی شرکاء کو شرعاً شفعہ کا حق حاصل ہو گا۔شفعہ کے بغیرکسی بھی شریک سے اس کا حصہ زبردستی خریدنا  درست نہیں۔اسی طرح کسی شریک کی رضامندی کے بغیر اس کا حصہ کم قیمت پر خریدنا  بھی جائز  نہیں۔

حاجی منان اور دیگر بھائیوں کی بات اس وقت درست ہوتی جب وہ غازی خان اور پیر محمد کے حصوں میں شفعہ کر لیتےیا نئے سودے کے عنوان سے ان دونوں بھائیوں کے حصوں کی قیمت متعین کر کے خرید لیتے چونکہ ایسا نہیں کیا گیا بلکہ واپسی کا عنوان اختیار کیا گیا اور واپسی بھی غازی خان کے توسط سے ہوئی اور رقم بھی اسی نے واپس کی ہے؛ اس لیے شرعاً یوں سمجھا جائے گا کہ پرانا معاملہ ختم کر کے اقالہ کیا گیا ہے لہذا پیر محمد اور غازی خان بھی دیگر شرکاء کی طرح اپنے اپنے حصوں کے مالک ہیں۔  

4 و 5۔ جی ہاں پیر محمد کے لیے اکیلے غازی خان کو اپنا حصہ بیچنا جائز تھا۔ اس پر لازم نہیں تھا کہ وہ اپنا حصہ مشترکہ طور پر باقی شرکاء کو بیچے؛ اس لیے اس سلسلے میں باقی بھائیوں کا اصرار درست نہیں۔ ہاں باقی بھائی پلاٹ فروخت ہونے کے بعد شفعہ کی شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے شفعہ کا دعویٰ کرتے تو انہیں اس کا حق تھا۔

نوٹ:  غازی خان پر وصول شدہ کرائے میں سےمنان خان اور  بھائیوں کا حصہ ادا کرنا بھی ضروری ہے۔

حوالہ جات
  • درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 28)
(المادة 1075) - (كل واحد من الشركاء في شركة الملك أجنبي في حصة الآخر ولا يعتبر أحد وكيلا عن الآخر فلذلك لا يجوز تصرف أحدهما في حصة الآخر بدون إذنه۔
وقول المجلة (أجنبي في حصة الآخر) لجواز تصرفه في حصته، وقد ذكر في المادة (1088) أن للشريك بيع حصته حتى بلا إذن شريكه.فلذلك لو باع أحد صاحبي الدار المشتركة نصفها لآخر فيصرف البيع الواقع على أنه في حصته وينفذ؛ لأنه يجب حمل تصرف الإنسان على أنه وقع بصورة مشروعة، فلو حمل بأن نصف ما باعه في حصته ونصف ما باعه في حصة شريكه فيكون قد حمل عمله على أمر غير مشروع۔
  • درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 29)
لو باع أحد صاحبي الدار المشتركة حصته وحصة شريكه بدون إذنه لآخر فيكون البيع المذكور فضولا في حصة الشريك (البهجة) وللشريك المذكور إن شاء فسخ البيع في حصته وإن شاء أجاز البيع إذا وجدت شرائط الإجازة.
  • بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 306)
وثمرة هذا الاختلاف إذا تقايلا ولم يسميا الثمن الأول أو سميا زيادة على الثمن الأول أو أنقص من الثمن الأول، أو سميا جنسا آخر سوى الجنس الأول قل أو كثر أو أجلا الثمن الأول فالإقالة على الثمن الأول في قول أبي حنيفة - رحمه الله -: وتسمية الزيادة والنقصان والأجل والجنس الآخر باطلة سواء كانت الإقالة قبل القبض أو بعدها، والمبيع منقول أو غير منقول لأنها فسخ في حق العاقدين، والفسخ رفع العقد، والعقد رفع الثمن الأول فيكون فسخه بالثمن الأول ضرورة؛ لأنه فسخ ذلك العقد، وحكم الفسخ لا يختلف بين ما قبل القبض وبين ما بعده وبين المنقول وغير المنقول، وتبطل تسمية الزيادة والنقصان والجنس الآخر والأجل، وتبقى الإقالة صحيحة؛ لأن إطلاق تسمية هذه الأشياء لا يؤثر في الإقالة؛ لأن الإقالة لا تبطلها الشروط الفاسدة وبخلاف البيع؛ لأن الشرط الفاسد إنما يؤثر في البيع؛ لأنه يمكن الربا فيه.والإقالة رفع البيع فلا يتصور تمكن الربا فيه فهو الفرق بينهما۔
  • بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 4)
(أما) الأول فسبب وجوب الشفعة أحد الأشياء الثلاثة الشركة في ملك المبيع، والخلطة وهي الشركة في حقوق الملك والجوار، وإن شئت قلت أحد الشيئين الشركة والجوار، ثم الشركة نوعان شركة في ملك المبيع وشركة في حقوقه كالشرب والطريق۔
  • درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 49)
إذا كان المال المشترك عقارا  فلأحد الشريكين بيع حصته بلا إذن الآخر ولا يحق لمشاركه إبطال هذا البيع إلا أن لشريكه حق طلب الشفعة۔
  • درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 26)
تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما، انظر المادة (1308) وحاصلاتها أيضا يجب أن تكون على هذه النسبة؛ لأن الغنم بالغرم بموجب المادة (88) .الحاصلات: هي اللبن والنتاج والصوف وأثمار الكروم والجنائن وثمن المبيع وبدل الإيجار والربح وما أشبه ذلك.

نفیس الحق ثاقب

دارالافتاءجامعۃالرشید کراچی

3محرم الحرام، 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نفیس الحق ثاقب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب