021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جنگلات اورپہاڑوں کوتقسیم کرنا
77452بنجر زمین کو آباد کرنے کے مسائلشاملات زمینوں کے احکام

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے دیرمیں مشترکہ پہاڑ تھے جوکئی صدیوں سے مشترکہ چلے آرہے تھے،چندسال پہلے وہاں کے لوگوں نے ان کوتقسیم کیاہے،اب پوچھنایہ ہے کہ پہاڑوں اورجنگلات کی اس طرح تقسیم درست ہے یانہیں؟ حالانکہ حدیث کی روسے جنگلات سے توتمام لوگ یکساں فائدہ اٹھاسکتے ہیں،اگرتقسیم درست ہے توجوجگہ کسی آدمی کوملی ہے وہ اس کی ملکیت ہے یانہیں؟کسی دوسرےآدمی کااس آدمی کی مملوکہ زمین سے فائدہ اٹھانا اورلکڑیاں لینا اورکاٹناجائزہے یانہیں؟

قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مطلوب ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

غیرآبادجنگلات اورپہاڑ جونہ کسی خاص شخص کی ملکیت میں داخل ہیں اورنہ ہی کسی علاقے اوربستی کی ضروریات ان سے متعلق ہیں اورنہ ہی وہ بالفعل قابل زراعت وانتفاع ہیں،ایسی زمینوں کوشریعت میں ارض موات کہاجاتاہے،جس کاحکم یہ ہے کہ حاکم وقت کی اجازت سے جواس زمین کوآبادکرکے قابل انتفاع بنائےوہی اس کامالک بن جاتاہے اورحکومت مفاد عامہ کوسامنے رکھتے ہوئے ایسی زمین کیلئے قوانین بھی بناسکتی ہے۔

جوزمینیں،جنگلات اورپہاڑ ایسے ہیں کہ علاقے والوں کی عام اورمشترک ضروریات ان سے وابستہ ہیں،جیسے عیدگاہ ،چراگاہ اورقبرستان وغیرہ،ان کاحکم یہ ہے کہ ایسی زمینیں کسی کی ملکیت نہیں،نہ ہی ان زمینوں کوتقسیم کیاجاسکتاہے اورنہ ہی ان زمینوں کوآبادکرنے سے کوئی مالک بن سکتاہے،ایسی زمین  میں سب علاقے والوں کابرابرحق ہے اورسب مشترکہ طورپرفائدہ اٹھاسکتے ہیں،اس تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوال کاجواب یہ ہے کہ جوپہاڑ تقسیم کیے گئے ہیں ان کے ساتھ اگرسب کی ضروریات وابستہ ہیں ،جیسے لکڑیاں وہاں سے حاصل کرتے ہیں یاقبرستان وغیرہ ہے تو یہ تقسیم کاعمل درست نہیں ہے،سب ان پہاڑوں کے مالک ہیں اورسب کیلئے ان پہاڑوں کی لکڑیوں سے فائدہ اٹھانا اورکاٹناجائزہے۔

  اوراگرعلاقے کی ضروریات ان پہاڑوں سے وابستہ نہیں اورنہ ہی اس سے پہلے کسی کی وہ ملکیت میں تھے توایسی صورت میں جوبھی حکومت کی اجازت سے اس زمین کوآبادکرے گااورقابل انتفاع بنائے گاوہی اس کامالک ہوگا۔                             (ملخص:عدالتی فیصلے283/2،اسلام کانظام اراضی(15:

حوالہ جات
فی شرح الوقاية لعلي الحنفي (ج 5 / ص 137):
(هي) أي الموات (أرض بلا نفع لانقطاع مائها) في أرض لا تزرع إلا بماء الأنهار أو الآبار (ونحوه) من غلبة الماء عليها، أو كونها سبخة، أو نازة، أو تعذر زرعها لكثرة الشجر أو الحجر أو الرمل فيها. وسميت بذلك تشبيها لها بالحيوان الميت في عدم الانتفاع به.
وفی فتح القدير (ج 22 / ص 326):
الموات ما لا ينتفع به من الأراضي لانقطاع الماء عنه أو لغلبة الماء عليه أو ما أشبه ذلك مما يمنع الزراعة ) سمي بذلك لبطلان الانتفاع به۔
وفی الجوهرة النيرة (ج 3 / ص 424):
أرض الموات هي التي لم تكن ملكا لأحد ولم تكن من مرافق البلد وكانت خارج البلد قربت من البلد أو بعدت قال رحمه الله ( الموات ما لا ينتفع به من الأرض لانقطاع الماء عنه أو لغلبة الماء عليه أو ما أشبه ذلك مما يمنع الزراعة ) بأن صارت سبخة أو نزية ؛ لأن الانتفاع يدل على الحياة.... ( من أحياه بإذن الإمام ملكه ، وإن أحياه بغير إذن الإمام لم يملكه عند أبي حنيفة ، وقال أبو يوسف ومحمد يملكه ) لقوله عليه السلام { من أحيا أرضا ميتة فهي له } ولأبي حنيفة قوله عليه السلام { ليس للمرء إلا ما طابت به نفس إمامه } ولأنه حق للمسلمين فليس لأحد أن يختص به بدون إذن الإمام كمال بيت المال ثم عند أبي حنيفة إذا لم يملكهابالإحياء وملكه إياها الإمام بعد الإحياء تصير ملكا له.                                     

محمد اویس بن عبدالکریم

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

03/01/1444

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب