021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بھائی کو زمین ہبہ کرنے کے بعد رجوع کرنے کا حکم
77428ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

ہمارے چچا نے ہمارے والد کو ایک زمین ہبہ کی اور اس کا باقاعدہ قبضہ بھی دے دیا، اس واقعہ کو تیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے، پھر ہمارے والد صاحب کا انتقال ہو گیا، انتقال کے بعد چچا نے اس زمین کی واپسی کا مطالبہ کیا، ہم نے کہا اب یہ زمین آپ کی نہیں، بلکہ یہ ہماری ہے، آپ نے والد صاحب کی زندگی میں کوئی بات نہیں کی، ان کی زندگی میں آپ واپس لے لیتے، اب ان کے انتقال کے بعد آپ مطالبہ کر رہے ہیں، لہذا اب یہ زمین ہم آپ کو نہیں دیں گے، سوال یہ ہے کہ کیا چچا کو اپنے بھتیجوں سے یہ زمین واپس لینے کا حق حاصل ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں آپ کے چچا کا آپ حضرات سے مذکورہ زمین واپس لینے کا حق حاصل نہیں ہے، کیونکہ جب آپ کے چچا نے آپ کے والد صاحب کو یہ زمین ہبہ کرکے اس کا باقاعدہ قبضہ بھی دے دیا تھا (جیسا کہ سوال میں مذکور ہے) تو ہبہ کا معاملہ مکمل ہو گیا اور آپ کے والد اس زمین کے مالک بن گئےاور پھر ان کے انتقال کے بعد وہ زمین بطورِ وارثت آپ حضرات کی طرف منتقل ہو گئی، لہذا اب شرعاً آپ ہی اس زمین کے مالک ہیں، آپ کے چچا کا آپ سے اس زمین کی واپسی کا مطالبہ کرنا جائز نہیں۔

نیز والد صاحب کی زندگی میں بھی چچا کو اس زمین کی واپسی کا حق حاصل نہیں تھا، کیونکہ حدیثِ پاک کی رُو سے  اگر کوئی شخص اپنے کسی محرم رشتہ دار کو کوئی چیز ہبہ کر دے اور اس کا قبضہ بھی دیدے تو ہبہ کرنے والے کے لیے وہ چیز  اس سے  واپس  لینا جائز نہیں۔ اور فقہائے کرام رحمہم اللہ نے  اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ محرم رشتہ دار کو ہبہ کرنے سے مقصود صلہ رحمی ہوتی ہے اور اس کا حصول ہبہ مکمل ہونے ساتھ ہی ہو جاتا ہے، گویا کہ ہبہ کرنے والے نے ہبہ کا عوض وصول کر لیا، اس لیے اس کو ہبہ کی گئی چیز واپس لینے کا اختیار نہیں ہوتا۔

حوالہ جات
  موطأ مالك رواية محمد بن الحسن الشيباني (ص: 285) المكتبة العلمية،بيروت:
قال محمد: وبهذا نأخذ، من وهب هبة لذي رحم محرم، أو على وجه صدقة، فقبضها الموهوب له، فليس للواهب أن يرجع فيها، ومن وهب هبة لغير ذي رحم محرم وقبضها فله أن يرجع فيها،
إن لم يثب منها، أو يزد خيرا في يده، أو يخرج من ملكه إلى ملك غيره. وهو قول أبي حنيفة، والعامة من فقهائنا.
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 226) دار احياء التراث العربي – بيروت:
قال: "وإن وهب هبة لذي رحم محرم منه فلا رجوع فيها" لقوله عليه الصلاة والسلام: "إذا كانت الهبة لذي رحم محرم منه لم يرجع فيها"؛ ولأن المقصود فيها صلة الرحم وقد حصل.
قال الحافظ ابو الفضل أحمد بن علی العسقلانی في الدراية فی تخریج احادیث الھدایۃ:
"حدیث إذا کانت الهبۃ لذی رحم محرم لم یرجع فیہا رواہ الحاکم والدارقطنی والبیهقی من طریق الحسن عن سمرۃ بهذا".
الأصل للشيباني (3/ 363) دار ابن حزم، بيروت:
محمد  عن غالب بن عبيد  الله عن عطاء ومجاهد عن عمر بن الخطاب أنه قال: من وهب هبة لذي رحم محرم فليس له أن يرجع فيها، ومن وهب هبة لغير ذي رحم فله أن يرجع فيها ما لم يُثَبْ منها).

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

3/محرم الحرام 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب