021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خاوند کی وراثت میں بیوہ کا کتنا حصہ ہو گا؟
77402میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہمارے بھائی شفیق کا انتقال ہوا، انتقال کے دو سال بعد ان کی اہلیہ نے دوسری جگہ شادی کر لی، انتقال کے وقت شفیق بھائی کے ورثاء میں چار بھائی اور ایک بیوہ شامل تھیں، ان کی کوئی اولاد نہیں تھی اور نہ ہی کوئی اور وارث تھا۔ سوال یہ ہے کہ شفیق بھائی کے ترکہ میں ان کی بیوہ کا کتنا حصہ ہو گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کے مرحوم بھائی نے بوقت ِانتقال اپنی ملکیت میں منقولہ وغیر منقولہ آپ کے والدمرحوم نے بوقت ِانتقال مال،جائیداد،سونا ،چاندی،نقدی اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا جو کچھ ساز وسامان چھوڑا ہے اور مرحوم  کا  وہ قرض جو کسی کے ذمہ  واجب  الادء ہو، يہ  سب مرحوم کا ترکہ ہے۔ اس میں سے سب سے پہلے مرحوم کے کفن دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں ،البتہ اگر کسی نے بطور تبرع ادا کر دیئے ہوں تو پھر یہ اخراجات نکالنے کی ضرورت نہیں ۔ پھرمرحوم کا  وہ قرض  ادا کیا جائے  جس کی ادئیگی مرحوم کے ذمہ  واجب ہو۔ اس کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ  میں سے ایک تہائی(3/1) تک اس پر عمل کیا جائے۔اس کے بعد جو ترکہ باقی بچے   اس میں سے چوتھائی (1/4) حصہ مرحوم کی بیوہ کو دے دیا جائے اور باقی ترکہ ان کے چاروں بھائیوں میں برابر تقسیم کر دیا جائے اور اگر ان بھائیوں میں سے کسی کا انتقال ہو چکا ہوتو اس کا ترکہ اس کے ورثاء کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔

حوالہ جات
القرآن الكريم[النساء: 12] :
{وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ}

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراتشی

2/محرم الحرام 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب