021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فاتر العقل شخص کی میراث کی بہن اور والد کے چچا زاد بھائیوں میں تقسیم
77418میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ایک شخص غلام محمد ولد دوست محمد جو فاتر العقل تھا اور اس نے شادی نہیں کی تھی، فوت ہوگیا۔ اس کا کوئی بھائی نہیں تھا، صرف ایک بہن تھی۔ والدین فوت ہوچکے تھے، چچا بھی کوئی نہیں تھا۔ البتہ سات پھوپھیاں تھیں جو اس کی زندگی ہی میں فوت وفات پاگئیں، ان کی اولادیں ہیں۔ والد کے چچا زاد بھائی تھے جو اس کی زندگی ہی میں وفات پاگئے، البتہ والد کی دو چچا زاد بہنیں زندہ ہیں، اور والد کے چچا زاد بھائیوں کی اولادیں ہیں۔

مرحوم غلام محمد کی وراثت جائیداد وغیرہ ایک بہن کے علاوہ کس کس کو ملے گی ؟ بہن جس نے ساری زندگی فاتر العقل بھائی کی خدمت کی ہے، بعد میں فوت ہوئی ہے، ابھی جائیداد بھانجوں کے قبضہ میں ہے۔

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ سوال میں "فاتر العقل" سے مراد پاگل ہی ہے، غلام محمد کے دادا، دادی اور نانی بھی اس کی زندگی میں فوت ہوگئے تھے، بہن غلام محمد کی وفات کے بعد فوت ہوئی ہے، اور غلام محمد کے والد کے چچا زاد بھائیوں کی اولاد میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

غلام محمد ولد دوست محمد مرحوم نے انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں نقدی، سونا، چاندی، جائیداد، مکانات، کاروبار غرض جو کچھ چھوٹا، بڑا ساز و سامان چھوڑا ہے، یا اگر کسی کے ذمہ ان کا قرض تھا، تو وہ سب اس کا ترکہ یعنی میراث ہے۔ اس میں سے سب سے پہلے اس کی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں، البتہ اگر یہ اخراجات کسی نے بطورِ احسان اٹھائے ہوں تو پھر انہیں ترکہ سے نہیں نکالا جائے گا۔ اس کے بعد دیکھا جائے اگر اس کے ذمے کسی کا قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے۔ اس کے بعد جو کچھ بچ جائے، اس کے کل دو (2) حصے کر کے ایک (1) حصہ غلام محمد کی بہن کو دیا جائے گا، لیکن چونکہ اب غلام محمد کی بہن کا انتقال ہوچکا ہے، اس لیے اس کا یہ حصہ اس کے ورثا کو ملے گا، اس کے ورثا میں سے ہر ایک کا حصہ معلوم کرنے کے لیے ورثاء کی تفصیل لکھ کر دار الافتاء سے رجوع کرسکتے ہیں۔ غلام محمد کی میراث کا بقیہ ایک (1) حصہ غلام محمد کے والد کے چچازاد بھائیوں کی اولاد میں سے لڑکوں کو دیا جائے گا، پھر ان میں سے ہر ایک کا حصہ معلوم کرنے کے لیے ان کی تفصیل لکھ کر دار الافتاء سے رجوع کرلیں۔  

غلام محمد کی میراث میں اس کی پھوپھیوں کی اولاد، والد کی چچا زاد بہنوں، اور والد کے چچا زاد بھائیوں کی اولاد میں سے لڑکیوں کو کوئی حصہ نہیں ملے گا۔

حوالہ جات
القرآن الکریم، [النساء: 176]:
{يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ }
السراجی فی المیراث،ص 38-36:  
العصبات النسبیة ثلاثة:  عصبة بنفسه، وعصبة بغیره، و عصبة مع غیره. أما العصبة بنفسه فکل ذکر لا تدخل فی نسبته إلی المیت أنثی، وهم أربعة أصناف: جزء المیت، و أصله، و جزء أبیه، و جزء جده، الأقرب فالأقرب، یرجحون بقرب الدرجة .…و أما العصبة بغیره فأربع من النسوة، و هن اللاتی فرضهن النصف و الثلثان، یصرن عصبة بإخوتهن کما ذکرنا فی حالاتهن. و من لا فرض لها من الإناث و أخوها عصبة، لا تصیر عصبة بأخیها، کالعم و العمة، المال کله للعم دون العمة.
حاشیة السراجی المسمی دلیل الوراث،ص 38-36:  
( جزء جده) أي الأعمام، ثم عم الأب ثم عم الجد ثم أبیه کذلك وإن سفل. وتأخیر الأعمام عن الإخوة وتأخیر بنیهم عنهم لبعد درجتهم. فظهر أن جهات العصبة بنفسه أربعة: الأولی: البنوَّة بغیر واسطة أو بواسطة، والثانیة: الأبوة کذلك، والثالثة: الأخوة، والرابعة: العمومة له أو لأبیه أو لجده وإن علا، وکذا بنوهم. فهم أربعة أصناف کما علمت، فالمنفرد منهم یأخذ کل المال، وإلا فکما تقدم.   
الدر المختار (6/ 649):
 (وشرائطها كون الموصي أهلا للتمليك ) فلم تجز من صغير أو مجنون.
رد المحتار (6/ 649):
قوله ( أهلا للتمليك ) الأولى قول النهاية: أهلا للتبرع.  

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

    3/محرم الحرام/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب