021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میت کمیٹی بنانے کا شرعی طریقہ
77438جنازے کےمسائلتعزیت کے احکام

سوال

ہم نے خاندان کی سطح پر ایک سوسائٹی بنائی ہے،جس کے بنیادی مقاصد درج ذیل ہیں:

خاندان کو انتظامی نظم و نسق میں جوڑنا،خاندانی سطح پر آپس میں رشتے کرنے کی ترغیب اور حوصلہ افزائی کرنا،خوشی غمی کے معاملات کو اجتماعی طور پر نمٹانا،خوشی وغمی کے موقع پر مروجہ رسومات سے بچتے ہوئے سنت طریقے کو رواج دینا،معذور،بے کس اور بیمار افراد کو بحال کرنا،تعزیت اور تیمارداری میں سنت طریقے کو رواج دینا،ناراض لوگوں میں صلح جوئی،خاندان کے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت اور اس کی ترغیب اور حوصلہ افزائی کرنا،جہیز کی رسم کی حوصلہ شکنی،بیوگان کی بحالی اور انہیں عقد ثانی کی ترغیب دینا،بہنوں اور بیٹیوں کو میراث میں حصہ دینے کی ترغیب دینا وغیرہ۔

اس سوسائٹی کا باقاعدہ ماہانہ اجلاس ہوتا ہے،جس میں ایک دوسرے کے حال احوال کی خیر خبر لی جاتی ہے،آپس میں نماز کی ترغیب،صلح جوئی اور بیماروں کی عیادت وغیرہ کی تلقین کی جاتی ہے،رمضان المبارک میں اجتماعی افطاری اور قربانی کے موقع پر اجتماعی قربانی کا اہتمام کیا جاتا ہے،اس سوسائٹی کا باقاعدہ انتظامی ڈھانچہ بنایا گیا ہے،جس میں امیر،خزانچی وغیرہ طے کئے گئے ہیں،اس سوسائٹی کے کچھ اصول و ضوابط طے کئے گئے ہیں،ان اصول و ضوابط ہی کے ضمن میں آپ کی راہنمائی مطلوب ہے:

1۔سوسائٹی کی ممبر شپ کے لئے ہر گھر کے شادی شدہ فرد پر ماہانہ پانچ سو روپے چندہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔

2۔اس چندہ سے جمع شدہ رقم کا مصرف سوسائٹی کے ممبر کے گھر ہونے والی فوتگی کے اخراجات پورے کرنا ہے۔

ان اخراجات کی مد میں ایک لاکھ روپے طے کردیا گیا ہے،جس سے متوفی کے کفن دفن اور آنے والے مہمانوں کی تین دن تک مہمانی کرنا ہے،متاثرہ ممبر ماہانہ جو رقم جمع کراچکا ہے اس کو منہا کرکے باقی رقم جو خرچ ہوئی باقی ممبران سے وصول کی جائے گی،گویا سوسائٹی ممبر یا ممبر کے گھر کا کوئی فرد فوت ہوا اور اس نے زندگی میں ماہانہ چندہ دس بارہ ہزار روپے جمع کرایا تھا،اب اس کی فوتگی کے اخراجات پر صرف شدہ بقایا رقم باقی ممبران سے وصول کرنا اور متوفی کو موت کی صورت میں نوے ہزار کا پرافٹ ملنا اس کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟

3۔ممبر جو ماہانہ چندہ جمع کراتا ہے وہ ناقابل واپسی ہے،اگر سوسائٹی کا ممبر کسی معذوری یا مجبوری کی وجہ سے سوسائٹی سے نکلنا چاہتا ہے تو اس کی جمع شدہ رقم اسے واپس نہیں ملے گی۔

4۔اگر خاندان کوئی فرد جو ممبر شپ کا اہل ہو بے روزگار ہونے کی وجہ سے ماہانہ چندہ جمع نہ کراسکے تو اس کا ماہانہ چندہ اس پر قرض ہوگا۔

5۔سوسائٹی  کا وہ ممبر جو اپنے بچوں کی شادی،بیاہ کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوچکا ہوں وہ برسرروزگار ہونے کے باوجود ماہانہ چندہ سے مستثنی ہوگا،جو چندہ وہ جمع کراچکا سو کراچکا،اس ممبر کی فوتگی پر اس کا ماہانہ چندہ منہا کرکے باقی اخراجات باقی ممبران کے ذمہ ہوں گے،آیا یہ صورت لائف انشورنس کی حیثیت سے سود کے ضمن میں تو نہیں آتی؟

6۔سوسائٹی کے ممبران سے جو ماہانہ چندہ وصول کیا جاتا ہے اسے سوسائٹی کے نام وقف کی حیثیت دی گئی ہے،کیا شریعت میں ایسے وقف کی کوئی گنجائش ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت کے لحاظ سے فوتگی کے موقع پر اہلِ میت کے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اہل میت کے لیے کھانے وغیرہ کا انتظام کریں،لیکن چونکہ آج کل لوگ اس میں غفلت برتتے ہیں،اس لیے لوگوں کو سہولت کے لیے اس کا باقاعدہ نظم بنانا پڑتا ہے،تاکہ ایسے موقع پر پریشانی سے بچا جاسکے،لہذا اس مقصد کے لیے کمیٹی بنانے کی گنجائش ہے،تاہم اس مقصد کے لیے بنائی جانے والی کمیٹیوں میں عام طور پر  درج ذیل قباحتیں پائی جاتی ہیں:

  1. امیر و غریب کا لحاظ کیے بغیر تمام چندہ دہندگان سے برابر چندہ لینا ، جس میں عموماً غرباء کی رضامندی شامل نہیں ہوتی۔
  2. فقہائے کرام رحمہم اللہ نے اہلِ میت کے رشتہ داروں اور پڑوسیو ں كےليے اہلِ میت  كو  عام حالات میں صرف ایک دن اور ایک رات  کاکھانا کھلانا مستحب قرار دیاہے، کیونکہ اس دن اہل میت تجہیز و تکفین میں مشغول ہوتے ہیں، بلاضرورت دوسرے اور تیسرے دن کھانے کا انتظام شریعت سے ثابت نہیں،البتہ اگر رشتہ دار دوردراز سے آئے ہوں اور دوسرے یا تیسرے دن بھی ضرورت ہو تو بقدرِ ضرورت اس کی گنجائش ہوگی۔
  3. کمیٹی میں جمع شدہ رقم  کی  زکوۃ اداکرنے کا  کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا، حالانکہ سال گزرنے پر اس کی زکوۃ ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
  4. اگر چندہ دینے والوں میں سے کوئی فوت  ہو جائے تو اس کا حصہ اس کے ورثاء کو واپس  نہیں دیاجاتا۔

حالانکہ میت کمیٹی کی انتظامیہ دراصل چندہ دینے والے کی طرف سےفوتگی کے موقع پر رقم خرچ کرنے کی  وکیل ہوتی ہے اور وکیل جب تک رقم کو خرچ نہیں کرلیتا وہ چندہ دینے والے کی ملکیت میں رہتی ہے، اس لیے یہ رقم خرچ ہونے سے پہلے  شرعاً چندہ دینے والے کی ملکیت ہوتی ہے، لہذاسال گزرنے پر اگر مالک صاحبِ نصاب ہو تو اس کے ذمے اس رقم کی زکاة ادا کرنا لازم ہے،اسی طرح  اگر کمیٹی کا کوئی ممبر اپنی جمع کرائی گئی  رقم خرچ ہونے سےپہلے فوت ہو جائے تو اس کے حصہ کی رقم اس کی ملکیت میں ہونے کی وجہ سےاس کے ورثہ کو واپس کرنا ضروری ہوتا ہے۔

اس لیے مذکورہ بالا وجوہ کی بنا ء پر مروّجہ طریقے کے مطابق میت کمیٹی بنانا جائز نہیں،البتہ درج ذیل شرائط کی رعایت کے ساتھ کمیٹی بنانے کی گنجائش ہے:

  1. شروع میں چند لوگ مل کر کچھ رقم  جمع کرکےاپنی رضامندی سے ایک وقف قائم کریں، جس کی آخری جہت فقراء ومساکین ہوں، یعنی یہ طے کیا جائے کہ اگر کبھی یہ وقف ختم کرنا پڑا تو اس میں موجود رقم فقراء ومساکین پر خرچ کی جائے گی۔
  2.  :يہ واضح رہے کہ جتنی رقم سے شروع میں وقف قائم کیا جائے گا اتنی رقم وقف میں باقی رکھنا ضروری ہو گا، اس کے علاوہ بطورفنڈ دی جانے والی رقم خرچ کی جاسکے گی،اس لئے ممبران کی جانب سے دیئے جانے والے سارے چندے کو وقف نہ قرار دیا جائے،بلکہ مذکورہ طریقے سے وقف فنڈ قائم کیا جائے،تاکہ اس کے بعدجمع ہونے والا چندہ اس وقف فنڈ کی ملکیت ہو اور اسے مذکورہ مصارف میں خرچ کیا جاسکے۔
  3.  اس وقف کی شرائط میں یہ بھی لکھا جائے کہ جو شخص اس وقف کو ماہانہ اتنا چندہ دےگا تو اس وقف کی پہلی ترجیح یہ ہوگی کہ اس کے گھر میں فوتگی کی صورت میں اس کے ساتھ حسبِ استطاعت تعاون کیا جائے گا، نیز یہ تعاون چندہ کی رقم کی کمی بیشی کے ساتھ مربوط نہیں ہو گا، بلکہ وقف کے منتظمین متاثرہ گھرانے کی مالی حیثیت اورمہمانوں کی تعداد وغیرہ کا لحاظ رکھتے ہوئے تعاون کی مقدار کا فیصلہ کریں گے۔
  4. چندہ  دہندگان  کو قانونی طور پر اور نقدی کی صورت میں اس تعاون کے مطالبے کا حق حاصل نہیں ہو گا۔
  5. وقف میں یہ شرط بھی رکھی جائے کہ وقتاً فوقتاً یہ وقف دیگر غرباء (جو اس وقف کو چندہ نہیں دیتے) کے افراد کے فوت ہونے پر بھی حسبِ استطاعت ایک معتد بہ اور خاطرخواہ مقدار میں خرچ كرے گا۔
  6. چندہ دینے پر کسی شخص کو مجبور نہ کیا جائے اور نہ خاندان کے ان لوگوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے جو اس وقف کو چندہ نہ دینا چاہتے ہوں، بلکہ حسبِ صوابديد اپنی خوشی سے جو شخص  چاہے اس وقف کو چندہ دینے والوں میں شامل ہو،البتہ وقف کی مصلحت کے لیے چندے کی کم از کم حد مقرر کرکے صاحبِ استطاعت لوگوں کو اتنا چندہ دینے کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔
  7. وقف كا ممبر بننے كے ليے حقيقی اخراجات کے علاوہ کسی قسم کی کوئی رقم وصول نہ کی جائے، نیز اگر کوئی ممبر غریب اور وہ وسعت نہ ہونے کی وجہ سے کبھی طے شدہ رقم سے کم دے تو اس کی بھی گنجائش رکھی جائے۔
  8. عام حالات میں ایک دن سے زیادہ کھانے کا اہتمام نہ کیا جائے،البتہ اگر باہر کے مہمان زیادہ ہوں اور دور سے آئے ہوں تو ایک دن سے زیادہ بھی کھانے وغیرہ کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔

مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ وقف قائم ہونے کے بعد چندہ دینے والے افرادکے گھر میں فوتگی  ہونےپر وقف کی انتظامیہ کو وقف کے طے شدہ  اصول وضوابط کے مطابق  اہلِ میت کے ساتھ تعاون کرنے کی اجازت ہو گی،نیز ایسی صورت میں اس وقف میں جمع شدہ رقم  پر زکوۃ بھی لازم نہیں ہوگی اور ممبر شپ ختم کرنے والے یا فوت ہونے والےشخص کی جمع کی گئی رقم واپس کرنا بھی ضروری نہ ہو گا،کیونکہ ان کی دی گئی رقم ان کی ملکیت سے نکل کر وقف فنڈ کی ملکیت بن جائے گی۔

نیز فوتگی کے موقع پر ممبر کے ساتھ اس کے جمع کئے گئے چندے سے اضافی رقم جو اسے ملے گی وہ سود کے زمرے میں نہیں آئے گی،کیونکہ ہر ممبر وقف فنڈ کو چندہ کی مد میں رقم اس نیت سے جمع کرائے گا کہ اس رقم سے غمی کے موقع پر خاندان کے افراد کے ساتھ تعاون ہوگا،جس میں وہ خود بھی شامل ہے اور خاندان کے ایسے غریب افراد بھی جو وقف فنڈ کو چندہ دینے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

حوالہ جات
" سنن الترمذي "(2/ 314):
 عن عبدﷲبن جعفر قال: لما جاء نعي جعفر، قال النبي صلى ﷲ عليه وسلم: اصنعوا لأهل جعفر طعاما، فإنه قد جاءهم ما يشغلهم. هذا حديث حسن".
قال الملا علی القارئ رحمہ اللہ :" والمعنى جاءهم ما يمنعهم من الحزن عن تهيئة الطعام لأنفسهم فيحصل لهم الضرر وهم لا يشعرون قال الطيبي دل على أنه يستحب للأقارب والجيران تهيئة طعام لأهل الميت اه والمراد طعام يشبعهم يومهم وليلتهم فإن الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعام لا يستمر أكثر من يوم وقيل يحمل لهم طعام إلى ثلاثة أيام مدة التعزية ثم إذا صنع لهم ما ذكر سن أن يلح عليهم في الأكل لئلا يضعفوا بتركه استحياء أو لفرط جزع".
"رد المحتار"(2/ 239):
" (قوله وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله - صلى ﷲ عليه وسلم - «اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم» حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل؛لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ".
"السنن الكبرى للبيهقي "(6/ 166):
عن علي بن زيد، عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول ﷲ صلى ﷲ عليه وسلم قال: " لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه ".
"رد المحتار" (4/ 363):
وقال المصنف في المنح: ولما جرى التعامل في زماننا في البلاد الرومية وغيرها في وقف الدراهم والدنانير دخلت تحت قول محمد المفتى به في وقف كل منقول فيه تعامل كما لا يخفى؛ فلا يحتاج على هذا إلى تخصيص القول بجواز وقفها بمذهب الإمام زفر من رواية الأنصاري وﷲ تعالى أعلم، وقد أفتى مولانا صاحب البحر بجواز وقفها ولم يحك خلافا. اهـ".

"بدائع الصنائع " (2/ 9):

"وأما الشرائط التي ترجع إلى المال فمنها: الملك فلا تجب الزكاة في سوائم الوقف والخيل المسبلة لعدم الملك وهذا؛ لأن في الزكاة تمليكا والتمليك في غير الملك لا يتصور. ولا تجب الزكاة في المال الذي استولى عليه العدو وأحرزوه بدراهم عندنا؛ لأنهم ملكوها بالإحراز عندنا فزال ملك المسلم عنها".

 

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

03/محرم1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب