021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ہبہ بغیر القبض میں وراثت جاری ہوگی
77432میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ایک  اور بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میرے چچا نے انتقال سے پہلے یہ بات اپنی بیوی کو ہسپتال میں کہی تھی کہ میرا جو کچھ ہے وہ تمہارا اور بیٹیوں کا ہے اور اس کے علاوہ بھی متعدد مواقع پر انہوں یہ بات اپنی بیوی اور بیٹیوں سے کہی تھی اور کچھ جائیداد باقاعدہ ان کے نام پر کردی تھی،لیکن نقد رقم اور کچھ جائیداد جس میں سے پچاس فیصد کا میں مالک ہوں ان کے نام نہیں کی۔

ایک بات اور واضح کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے یہ بات صرف اپنی بیوی اور بچیوں کے سامنے نہیں کہی،بلکہ دیگر متعدد مواقع پر بھی کہی کہ میرا سب کچھ میری بیوی اور بچیوں کا ہے اور اپنے داماد سے بھی یہی کہا،میرے بڑے چچا نے انہیں یہ تجویز دی تھی کہ تم سب کچھ اپنے بیوی اور بچیوں کے نام کردو اور پھر ان کی طرف سے وکیل بن جاؤ،پھر جب تک تم حیات ہو وہ مال تمہارا ہوگا اور تم خود مختار ہوگے اور بچیوں کے نام سے اکاؤنٹ کھول لو،یہ سب کرنے کا ان کا ارادہ تھا،لیکن آپ غفلت کہیں یا سستی کہ ایسا وہ کر نہیں سکے اور پھر اچانک بیماری کی ایسی شدت ہوئی کہ پندرہ دن کے اندر ان کا انتقال ہوگیا،انہیں دو سال پہلے بیماری ہوئی تھی،لیکن وہ بالکل صحیح تھے،دو سال بعد اچانک کینسر آخری اسٹیج پر پہنچ گیا اور پندرہ دن کے اندر ان کا انتقال ہوگیا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زندگی میں اپنی جائیداد ورثہ کو دینا ہبہ کے حکم میں ہے اورہبہ کے تام ہونے کے لئے ضروری ہے کہ جو چیز جسے ہبہ کی جائے اس کے قبضے میں بھی دے دی جائے اور اگر ایک سے زیادہ لوگوں کو کوئی ایسی چیز ہبہ کی جائے جو تقسیم کے قابل ہو تو اسے باقاعدہ تقسیم کرکے دیا جائے،قبضہ دیئے بغیر محض زبانی کلامی ہبہ کرنے،کاغذات کسی کے نام رجسٹر کروانے یا تقسیم کے بغیر مشترکہ طور پر ہبہ کرنے سے ہبہ تام نہیں ہوتا اور ہبہ کی گئی چیز بدستور ہبہ کرنے والے کی ملکیت میں باقی رہتی ہے۔

لہذا مذکورہ صورت  انتقال کے وقت چچا کی ملک میں موجود ایسی تمام جائیداد میراث کا حصہ ہوگی جس کا چچا نے صرف زبانی ہبہ کیا،باقاعدہ تقسیم کرکے بیوی اور بچیوں کے قبضے میں نہیں دی۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (5/ 688):
"(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) كما سيتضح".
"الفتاوى الهندية" (4/ 374):
" ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة".
 

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

04/محرم1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب