021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میت کے اصول وفروع نہ ہو تو بہن بھائیوں کو حصہ ملے گا
77431میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میرے چچا کا اسی سال فروری میں انتقال ہوا ہے،ان کی تین بیٹیاں ہیں اور ایک بیوی جو فی الحال عدت میں ہے،میرا اور میرے چچا کا 2002 سے مشترکہ کاروبار رہا ہے۔

پوچھنا یہ ہے کہ میرے چچا کی تین بیٹیاں ہیں،جبکہ بیٹا نہیں ہے،ہم نے سنا ہے کہ شریعت کی رو سے جس شخص کی صرف بیٹیاں ہوں،بیٹا نہ ہو تو اس کی میراث میں سے اس کے بہن بھائیوں کو بھی حصہ ملتا ہے،اگر اس نے میراث بیوی بچوں کے نام نہ کروائی ہو۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر انتقال کے وقت میت کی نرینہ اولاد اور والد نہ ہو تو میت کے بھائیوں کو اس کی میراث میں سے حصہ ملتا ہے،چونکہ مذکورہ صورت میں انتقال کے وقت نہ میت کے والد حیات تھے اور نہ ان کی نرینہ اولاد تھی،اس لئے میت کے سگےبہن بھائیوں کو میراث میں سے حصہ ملے گا۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (6/ 774):
" ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت) بأكثر (عصبة وذا سهم) كما مر (ثم الجد الصحيح) وهو أبو الأب (وإن علا) وأما أبو الأم ففاسد من ذوي الأرحام (ثم جزء أبيه الأخ) لأبوين (ثم) لأب ثم (ابنه) لأبوين ثم لأب (وإن سفل) تأخير الإخوة عن الجد وإن علا قول أبي حنيفة وهو المختار للفتوى خلافا لهما وللشافعي".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

04/محرم1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب