021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ٹاؤن والوں کا مسجد کے کمرے کو انتظامی مقاصد کے لیے استعمال کرنا
77479وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

صورتِ حال یہ ہے کہ رہائشی ٹاون میں ٹاون بنانے والوں نے لوگوں کے لئے مسجد بنائی تھی،  جس میں امام صاحب کے رہائش وغیرہ لئے ایک کمرہ بھی بنایا تھا، جس میں امام صاحب  رہائش پذیر تھے، اب ہوا یہ کہ ٹاون والوں نے اسی کمرے سے امام صاحب کو نکال کر کمرے کو ٹاون کے انتظامی امور سیکورٹی، کنٹرول روم ،  لین دین یا انتظامیہ کے لوگوں کے لئے دفتر بنا رہے ہے، اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

جبکہ یہ جامع مسجد ہے اور پورے ٹاؤن میں یہ ایک ہی مسجد ہے، جس میں لوگ تقریباً سات سال سے نماز پڑھ رہے ہیں اوریہ کمرہ بھی مسجد کی حدود کے اندر ہی ہے، بالکل مسجد کے ہال سے پیوست ہے، جس کا ایک دروازہ مسجد کے حال کی  طرف جبکہ دوسرا باہر کی طرف ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 سوال میں ذکر گئی صورتِ حال سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ مسجد شرعی مسجد ہے، لہذا ایسی صورت میں مسجد کی حدود میں موجود تمام جگہ مسجد کے لیے وقف شمار ہو گی اور اس حدود کے اندر امام صاحب کے لیے تعمیر کیا گیا کمرہ مصالح مسجد میں سے شمار ہو گا اور اب اس کو ٹاؤن کی انتظامیہ کا ٹاؤن کے انتظامی امورمثلا: سیکورٹی، کنٹرول روم ،  لین دین اور دیگر دنیوی مقاصدکے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ مسجد کے لیے وقف جگہ صرف مسجد اور اس کے مصالح کے لیے ہی استعمال کرنا درست ہے، کسی اور مقصد کے لیے اس جگہ کا استعمال خلافِ شرع ہے۔ البتہ اگر ٹاؤن کی انتظامیہ کو ضرورت ہو تو متولیٴ مسجد سے یہ کمرہ کرایہ پر لیا جا سکتا ہے، اسی طرح یہ کمرہ لوگوں کے عام مصالح جیسے لوگوں کے درمیان جھگڑوں کے فیصلے کرنے، کسی رفاہی کام کے سلسلہ میں باہم مشورہ کرنے  اور دینی تعلیم کے لیے کوئی کلاس وغیرہ لگانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

البتہ ایسی صورت میں مسجد کی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ امام صاحب کو کوئی دوسرا کمرہ تعمیر کرکے دیں، تاکہ ان کو تنگی اور پریشانی  کا سامنا نہ ہو۔

حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 20) دار احياء التراث العربي – بيروت:
قال: "ومن جعل مسجدا تحته سرداب أو فوقه بيت وجعل باب المسجد إلى الطريق، وعزله عن ملكه فله أن يبيعه، وإن مات يورث عنه" لأنه لم يخلص لله تعالى لبقاء حق العبد متعلقا به، ولو كان السرداب لمصالح المسجد جاز كما في مسجد بيت المقدس.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 366) دار الفكر-بيروت:
قولهم شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة، ووجوب العمل به.
الفتاوى الهندية (2/ 362) دار الفكر، بيروت:
البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه والأصح أنه لا يجوز كذا في الغياثية.
الفتاوى الهندية (2/ 350) دار الفكر، بيروت:
وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما كذا في شرح أبي المكارم للنقاية.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

4/محرم الحرام 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب