77507 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | ہبہ کےمتفرق مسائل |
سوال
میرے تایا نے جو چیزیں زندگی میں کسی کے نام کی ہیں کیا وہ بھی میراث میں تقسیم ہوں گی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
میراث کی تقسیم میں وہ جائیداد شامل نہیں ہو گی جو انہوں نے اپنی زندگی میں کسی کو مالکانہ طور پر دے کر اس کا قبضہ بھی دے دیا ہو، کیونکہ وہ جائیداد دوسرے کو ہبہ(ہدیہ) کرنے کی وجہ سے ان کی ملکیت سے نکل چکی ہے، لہذا اس جائیداد کا وہی شخص مالک ہو گا جس کو وہ جائیداد دی گئی ہے۔ البتہ اگر کسی جائیداد کا ان کی زندگی میں موہوب لہ (جس کو وہ جائیداد ہبہ کی گئی ہو) كو قبضہ نہیں دیا گیا تھا، بلکہ صرف قانونی کاغذات میں نام کروانے یا زبانی ہبہ کرنے پر اکتفاء کیا گیا تھا تو ایسی صورت میں وہ جائیداد آپ کے تایا کی ہی ملکیت شمار ہو گی، کیونکہ قبضہ کے بغیر ہبہ مکمل نہیں ہوتا، اس لیے ایسی جائیداد بھی ان کی وراثت میں شامل ہو کر ان کے ورثاء کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہو گی۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 119) دار الكتب العلمية، بيروت:
(ومنها) أن يكون محوزا فلا تجوز هبة المشاع فيما يقسم وتجوز فيما لا يقسم كالعبد والحمام والدن ونحوها وهذا عندنا۔
تحفة الفقهاء (3/ 161) دار الكتب العلمية، بيروت:
ومنها أن تكون الهبة مقسومة إذا كان يحتمل القسمة وتجوز إذا كان مشاعا لا يحتمل القسمة سواء كانت الهبة للشريك أو غيره۔
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 223) دار احياء التراث العربي – بيروت:
قال: "ولا تجوز الهبة فيما يقسم إلا محوزة مقسومة، وهبة المشاع فيما لا يقسم جائزة" وقال الشافعي: تجوز في الوجهين؛ لأنه عقد تمليك فيصح في المشاع وغيره كالبيع بأنواعه، وهذا؛ لأن المشاع قابل لحكمه، وهو الملك فيكون محلا له، وكونه تبرعا لا يبطله الشيوع كالقرض والوصية. ولنا أن القبض منصوص عليه في الهبة فيشترط كماله والمشاع لا يقبله إلا بضم غيره إليه ولأن في تجويزه إلزامه شيئا لم يلتزمه وهو مؤنة القسمة، ولهذا امتنع جوازه قبل القبض لئلا يلزمه التسليم، بخلاف ما لا يقسم؛ لأن القبض القاصر هو الممكن فيكتفى به؛ ولأنه لا تلزمه مؤنة القسمة. والمهايأة تلزمه فيما لم يتبرع به وهو المنفعة، والهبة لاقت العين ۔
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
12/محرم الحرام 1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |