021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"یہ میری بیوی نہیں” وغیرہ الفاظ سے وقوعِ طلاق کا حکم
77537طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میاں بیوی میں اختلافات پیدا ہوئے، بیوی میکے چلی گئی۔ اس دوران صلح کرانے کے لیے ایک تیسرے شخص نے لڑکے سے بات چیت کر کے اسے صلح پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ لڑکے نے صلح کرانے والے شخص کو فون پر پشتو میں کہا " ما نہ خزہ کڑی وہ، نہ می خزہ دہ، او نہ بہ یے خزہ کم "۔ ان الفاظ کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ "نہ میں نے اس کو بیوی بنایا تھا، نہ وہ میری بیوی ہے، اور نہ ہی آئندہ اسے بیوی بنالوں گا"۔ یہ جملہ صلح کے سیاق سباق میں کہا گیا ہے۔  سوال یہ ہے کہ اس جملے سے اس شخص کی بیوی کو طلاق ہوگئی ہے یا نہیں ؟

وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ شوہر نے پوچھنے پر بتایا کہ میں نے یہ جملہ طلاق کی نیت سے نہیں کہا تھا، بلکہ غصہ اور نفرت کے اظہار کے لیے کہا تھا۔  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ جملے سے اس شخص کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مذکورہ جملے میں ماضی اور مستقبل کے صیغوں یعنی " ما نہ خزہ کڑی وہ،او نہ بہ یے خزہ کم " یعنی "نہ میں نے اس کو بیوی بنایا تھا اور نہ ہی آئندہ اسے بیوی بنالوں گا" سے طلاق واقع نہیں ہوتی، اگرچہ طلاق کی نیت سے کہے جائیں۔ البتہ ان دونوں کے درمیان کے الفاظ "نہ می خزہ دہ" یعنی "نہ وہ میری بیوی ہے" اگر طلاق کی نیت سے کہے جائیں تو ان سے طلاق واقع ہوتی ہے، لیکن صورتِ مسئولہ میں چونکہ شوہر نے یہ الفاظ بھی طلاق کی نیت سے نہیں کہے؛ اس لیے ان سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔  

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 375):
ولو قال لامرأته: لست لي بامرأة، أو قال لها: ما أنا بزوجك، أو سئل فقيل له هل لك امرأة؟ فقال: لا، فإن قال: أردت به الكذب، يصدق في الرضا والغضب جميعا، ولا يقع الطلاق، وإن قال: نويت الطلاق يقع في قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى. وإن قال لم أتزوجك ونوى الطلاق لا يقع الطلاق بالإجماع، كذا في البدائع. ولو قال: ما لي امرأة لا يقع وإن نوى، وكذا لو قال علي حجة إن كانت لي امرأة، وهذا بالإجماع، ذكره الإمام السرخسي في نسخته والشيخ الإمام نجم الدين في شرح الشافي، كذا في الخلاصة. قد اتفقوا جميعا أنه لو قال: والله ما أنت لي بامرأة أو لست والله لي بامرأة، فإنه لا يقع شيء وإن نوى. ولو قال لا حاجة لي فيك ينوي الطلاق فليس بطلاق. ولو قال أفلحي ينوي الطلاق كان طلاقا، كذا في السراج الوهاج. إذا قال لا أريدك أو لا أحبك أو لا أشتهيك أو لا رغبة لي فيك؛ فإنه لا يقع وإن نوى في قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى، كذا في البحر الرائق.  ولو قال ما أنت لي بامرأة أو لست لك بزوج ونوى الطلاق يقع عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى وعندهما لا يقع.
رد المحتار (3/ 283):
والأصل أن نفي النكاح أصلا لايكون طلاقا بل يكون جحودا، ونفي النكاح في الحال يكون طلاقا إذا نوى، وما عداه فالصحيح أنه على هذا الخلاف، اه، بحر.

    عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  14/محرم الحرام/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب