021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بہن کا ترکہ کی تقسیم میں رکاوٹ بننا
77551خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میرے والدین کا انتقال ہوگیا ہے اور ہم کل آٹھ بہن بھائی ہیں،جن میں تین بھائیوں کی تعداد تین اور بہنوں کی تعداد پانچ ہے،ہماری کل وراثت ایک عدد فلیٹ اور تین پلاٹ پر مشتمل ہے،فلیٹ ناظم آباد نمبر چار میں واقع ہے،جب اس کو فروخت کرنے کی بات چلی تو میری ایک بہن نے کہا کہ یہ ماں باپ کی نشانی ہے،آپ لوگ اس کی قیمت لگوالیں،جو قیمت لگے مجھ سے لے لیں اور فلیٹ مجھے دے دیں،ہم نے قیمت لگوائی تو اس وقت باون لاکھ روپے قیمت لگی،بہن نے کہا کہ ٹھیک ہے،آپ لوگ باون لاکھ مجھ سے لے لو اور یہ مجھے دے دیدو،بقیہ ورثہ اس پر راضی ہوگئے اور فلیٹ بہن کے نام بھی کردیا ہے،کاغذات بھی بن کر آچکے ہیں،اس بات کو ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرچکا ہے،اب ہم بہن سے کہتے ہیں کہ ہمارا حصہ دو تو وہ کہتی ہے کہ میرے پاس پیسے نہیں ہے،ہم نے کہا کہ اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہے تو اس کو باہر مارکیٹ میں فروخت کردو،تاکہ ہمیں رقم مل جائے،لیکن وہ کہتی ہے کہ میں نہ خود اسے بیچوں گی اور نہ بیچنے دوں گی،اب شرعی لحاظ سے اس صورت کا کیا حکم ہے؟

تنقیح:سائل سے تنقیح کے ذریعے معلوم ہوا کہ فلیٹ اور پلاٹ کے سودے میں تین بھائیوں اور دو بہنوں کی رضامندی تو شامل تھی،لیکن تین بہنوں سے پوچھا تک نہیں گیا،حالانکہ وہ ان سب سے زیادہ مستحق ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ مشترکہ چیز کا سودا صحیح ہونے کے لئے تمام شرکاء کی رضامندی شرط ہے،کسی شریک کو بتائے بغیر اس کے حصے کا سودا شرعا نافذ نہیں ہوتا،بلکہ اس کی رضامندی پر موقوف رہتا ہے،لہذا جن ورثہ جن کی رضامندی سے یہ فلیٹ بہن پر فروخت کیا گیا ان کے حصوں کی بیع تو صحیح ہوگئی تھی اور جس بہن نے پلاٹ خریدا تھا وہ فلیٹ میں موجود ان کے حصوں کی مالک ہوگئی تھی،جس کے بعد اس بہن کے ذمےان ورثہ کو ان کے حصوں کی قیمت کی ادائیگی لازم ہوگئی تھی،اب جبکہ اس معاملے کو تقریبا ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرچکا ہے بہن پر لازم ہے کہ یا تو فوری طور پر ان ورثہ کو اس وقت لگائی گئی قیمت ادا کرے اور اگر ادائیگی کی کوئی صورت نہیں بن پارہی تو فلیٹ کو فروخت کرکے ان کے حصے ادا کرے۔

جبکہ ان تین بہنوں کے حصوں کی بیع ان کی رضامندی پر موقوف ہے جنہیں بتائے بغیر ان کے حصے بیچے گئے تھے،لہذا اب ان کی مرضی ہے، چاہیں تو سابقہ بیع کی اجازت دے دیں اور چاہیں تو نئے سرے سے موجودہ قیمت کے مطابق اپنے حصے فروخت کریں۔

نیز دیگرتمام ورثہ کی رضامندی سے ایک صورت یہ بھی ممکن ہے کہ اس بہن کا اس فلیٹ کے علاوہ والدین کے بقیہ ترکہ(وہ سونا،چاندی،نقدی،جائیداد یا ان کے علاوہ کوئی بھی چھوٹا بڑا سامان جو وفات کے وقت والدین کی ملکیت میں تھا سب ان کا ترکہ ہے)میں جو حصہ بنتا ہےیہ بہن اس فلیٹ کی قیمت کے عوض اپنے اس حصے سےبقیہ ورثہ کے حق میں دستبردار ہوجائے،پھربقیہ ترکہ میں اس بہن کے حصے سے جو اضافی قیمت فلیٹ کی اس کے ذمے آئے اس کی ادائیگی کا انتظام کرے۔

شرعی لحاظ سے بہن کا یہ طرزِ عمل ٹھیک نہیں ہے کہ وہ نہ تو دیگر ورثہ کا حق ادا کرے اور نہ فلیٹ کو فروخت کرکے انہیں اپنا حق وصول کرنے دے۔

حوالہ جات
"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام "(1/ 189):
"[ (المادة 215) بيع الحصة المعلومة الشائعة بدون إذن الشريك]
(المادة 215) يصح بيع الحصة المعلومة الشائعة بدون إذن الشريك سواء كان المشاع قابلا للقسمة أو غير قابل عقارا أو منقولا (انظر المادة 1088) لأنه كما سيذكر في المادة 1192 لكل أن يتصرف في ملكه كما يشاء وهذا البيع من جملة التصرفات وعلى هذا كما يحق لأحد الشريكين أن يبيع العرصة المشتركة من شريكه فكذلك يحق له أن يبيع حصته من الأجنبي بدون إذن من شريكه وكما أن لمن يملك حصة في دار مشتركة أن يبيع حصته في تلك الدار مع عرصتها لشريكه فله أن يبيع هذه الحصة من الأجنبي ولشريكه حق الشفعة".
"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام" (3/ 29):
" لو باع أحد صاحبي الدار المشتركة حصته وحصة شريكه بدون إذنه لآخر فيكون البيع المذكور فضولا في حصة الشريك (البهجة) وللشريك المذكور إن شاء فسخ البيع في حصته وإن شاء أجاز البيع إذا وجدت شرائط الإجازة.
وإذا تلف المبيع بعد البيع والتسليم وقبل الإجازة في يد المشتري يكون الشريك غير البائع مخيرا إن شاء ضمن الشريك البائع حصته باعتبار أنه غاصب وفي هذه الحالة يصح البيع ويكون الثمن له وإن شاء ضمنه للمشتري وهو يرجع على البائع بالثمن الذي دفعه أما البائع فلا يرجع على أحد. (الحامدية ورد المحتار بتصرف)
"تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق" (5/ 49):
"قال – رحمهﷲ - (وإن أخرجت الورثةأحدهم عن عرض أو عقار بمال، أو عن ذهب بفضة، أو بالعكس) أي عن فضة بذهب (صح قل، أو كثر) يعني قل ما أعطوه أو كثر؛ لأنه يحمل على المبادلة؛ لأنه صلح عن عين ولا يمكن حمله على الإبراء إذ لا دين عليهم ولا يتصور الإبراء عن العين".
"رد المحتار" (5/ 147):
"(قوله: صح بيع عقار إلخ) أي عندهما وقال محمد: لا يجوز وعبر بالصحة دون النفاذ واللزوم؛ لأنهما موقوفان على نقد الثمن أو رضا البائع، وإلا فللبائع إبطاله أي إبطال بيع المشتري، وكذا كل تصرف يقبل النقض إذا فعله المشتري قبل القبض، أو بعده بغير إذن البائع فللبائع إبطاله بخلاف ما لا يقبل النقض كالعتق والتدبير والاستيلاد بحر، وقوله: أو بعده بغير إذن البائع، الجار والمجرور متعلق بالضمير العائد على القبض أي بعد القبض الواقع، بلا إذنه؛ لأن قبض المبيع قبل نقد الثمن بلا إذن البائع غير معتبر؛ لأن له استرداده وحبسه إلى قبض الثمن".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

17/محرم1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب